’’سروش‘‘۔ایک تعارف

پروفیسر محمد عمران شفیع

ادب ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جہاں زندگی اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوتی ہے۔ کہیں جذبہ و احساس تسکینِ طبع کا سامان کرتے ہیں تو کہیں منطق و فلسفہ جمالیاتی پیرہن میںڈھل کر شعور و آگہی کے نئے در وا کرتے ہیں۔اس اعتبار سے ادب تمام علوم کا جامع ہے۔ادب کے ابلاغ و اشاعت کے ذرائع میں رسائل و جرائد کا کردار بہت کلیدی ہے۔یہ ایک طرف تو اپنے ماحول اور اس کی نیرنگیوں کے عکاس ہوتے ہیں اور دوسری طرف بڑی خاموشی کے ساتھ اپنے عہد کی تہذیب و ثقافت کی تاریخ مرتب کرتے ہیں۔ادب میں ان کی حیثیت اس لیے بھی ممتاز ہے کہ کسی ایک تخلیق کار کے فکر و فن کی عکاسی کرنے کی بجائے یہ ایک پورے عہد کے تخلیق کاروں کے نمائندہ ہوتے ہیں۔اس طرح یہ ایک دبستان ِادب کی تشکیل و ترتیب میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

آزاد کشمیر میں ادبی رسائل و جرائد کی روایت پاکستان جیسی تنو مند تو نہ سہی لیکن یہاں چند ایسے رسائل و جرائد ضرور ہیں جنہوں نے اُردو ادب کے حوالہ سے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ان مجلّات و رسائل نے اس خطے کی ادبی شخصیات اور ان کی تخلیقات کو دنیائے ادب میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ انہی میں ایک اہم نام گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج میرپور کے مجلہ’’ سروش ‘‘ کا ہے۔یہ مجلہ آزاد کشمیر کے ابتدائی رسائل میں سے ہے۔ ’’سروش‘‘ اس اعتبار سے بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ آزاد کشمیر کے سب سے قدیمی ادارے کا ترجمان ہے۔ اس مجلے نے آزاد کشمیر میں ادب کے اُفق پر اُبھرنے والے اُن تمام ستاروں کو آب و تاب بخشی جو آج ادب کی زینت ہیں۔

’’سروش ‘‘ میں شامل متنوع اصناف ِ سخن،وسعت ِ مضامین، اعلیٰ فن پارے اور اقبال شناسی کی باقاعدہ روایت اسے  خطے میں اُردو ادب کی ترویج و اشاعت کے حوالہ سے منفرد مقام عطا کرتے ہیں۔مجلہ ’’سروش‘‘ اپنی علمی و ادبی خدمات کے باعث ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی حیثیت قائم کر چکا ہے۔یہ آزاد کشمیر کے اُردو جرائد میں سب سے زیادہ تسلسل سے شائع  ہونے والا مجلہ ہے۔ جس نے اس خطے میں ادبی تخلیق کاروں کو اپنے جوہر دکھانے کے مواقع فراہم کیے اور اس کی بدولت آج بہت سے نام اُردو ادب میں پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی شناخت بنا چکے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ مجلہ گورنمنٹ کالج میرپورکی درخشاں تاریخ کو بھی عہد بہ عہد اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ گورنمنٹ کالج میرپور جیسے تعلیمی ادارے صرف درس و تدریس کے مراکز ہی نہیں ہوتے بلکہ ایک پوری تہذیب اور تاریخ کے امین ہوتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج میرپور کو آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں میں وہی حیثیت حاصل ہے جو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو پاکستان میں حاصل ہے۔خطے کی بہت سی موقر شخصیات جو نہ صرف ملک میں بلکہ عالمی سطح پر ممتاز حیثیت کی حامل ہیںاس ادارے سے وابستہ رہی ہیں۔ڈاکٹرمحمد رفیع الدّین، صوفی صغیر حسن،عبدالعلیم صدیقی،شیخ محمود احمد، خواجہ حمید ممتاز،،محمود ہاشمی،جاوید نظامی،الطاف قریشی جیسے نام اس بات کا بیّن ثبوت ہیں۔اس ادارے کی تاریخی اہمیت اس کے مفصّل تعارف کی متقاضی ہے۔

گورنمنٹ کالج میرپورکا قیام

گورنمنٹ کالج میرپورریاست جموں و کشمیرکا چوتھااور آزاد کشمیر کا پہلا کالج ہے۔اس کا قیام ۱۹۴۴ء میں عمل میں آیا۔اس سے قبل ریاست میںصرف تین کالج قائم تھے۔ ’’پرنس آف ویلزکالج‘‘ جموں میں’’سری پرتاپ سنگھ کالج‘‘سری نگر میںاور ’’امر سنگھ کالج‘‘ بھی سری نگر ہی میں قائم تھا۔ اس حوالہ سے کالج کے قیام کے دوسرے ہی سال کے طالب علم شیخ فضل الرحمٰن حزیںرقمطراز ہیں:

چوں کہ پوری ریاست میں مسلمان اکثریت میں تھے اس لئے ڈوگرہ شاہی انہیں تعلیم سے دور رکھنے کے منصوبے سوچتی تا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے حکومت کے لئے دردِسر نہ بن جائیں۔ چناں چہ ریاست میں صرف تین کالج قائم کیے گئے۔ ایک پرنس آف ویلز کالج جموں، دوسرا سری پرتاپ سنگھ کالج سری نگر اورتیسراامر سنگھ کالج سری نگر۔ـ(۱)

اس صورت ِ حال کے تدارک کے لیے،خطے میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اس خطے میں ایک اور کالج کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس دور کے ڈائریکٹر تعلیمات جو مسلم ہونے کی وجہ سے یہاں کے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی پر متفکر تھے ، انہوں نے میرپور کا دورہ کیا اور یہاں کالج کے قیام کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں مشہور محقق پروفیسر غازی علم الدین لکھتے ہیں :

مشہور ماہرِ تعلیم اور مولانا الطاف حسین حالیؔ کے نواسے خواجہ غلام السیدین جو اس وقت ریاست جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر تعلیمات تھے، میرپور کے دورے پر تشریف لائے انہوں نے یہاں کے مسلمانوں کی زبوںحالی،تعلیمی پسماندگی ا ورمالی پریشانیوں کو محسوس کیا اور یہاں ایک انٹرمیڈیٹ کالج قائم کرنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔    میر پور کالج کے قیام کے لیے خواجہ غلام السیدین نے مہاراجہ ہری سنگھ سے منظوری حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے اس کے الحاق کے لیے سرگرداں ہو گئے۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں پنجاب یونیورسٹی کا ایک کمیشن جو دو ممبران ڈاکٹر او۔ایچ ملک(عمر حیات ملک)اورپروفیسرشرما پر مشتمل تھا‘میرپور آیا۔ کمیشن نے خواجہ صاحب کی رہنمائی میں ہائی سکول میرپور کی عمارت اور گرائونڈ کا جائزہ لیا اور الحاق کی منظوری دے دی۔(۲)

اس طرح۱۹۴۴ء کے اوائل میں ایک انٹر میڈیٹ کالج کی حیثیت سے میرپور کالج کا قیام عمل میں آیا ۔ جیا لال کول کالج کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے جن کا سری پرتاپ سنگھ کالج سری نگر سے یہاں تبادلہ کیا گیاتھا۔ (۳)  کالج کی اولین جماعت کے طالب علم محمد صادق رقمطراز ہیں:

کالج کا نام سری کرن سنگھ کالج رکھا گیا ۔(مہاراجہ کے اکلوتے بیٹے کا نام کرن سنگھ تھا۔) گو کلاج میں فرسٹ ائیر کلاس کا داخلہ مئی ۱۹۴۴ء میں کر دیا گیا لیکن کالج کی باقاعدہ رسم ِ افتتاح۱۴جون۱۹۴۵ء کو بعد دوپہر زیر ِ صدارت پنڈت بشمیر ناتھ کول سیشن جج میرپور‘بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منائی گئی۔ (۴)

            کالج کے قیام کے چند ہی برس بعد ۱۹۴۷ء میں جنگ ِ آزادی کا آغاز ہونے پر کالج میں درس و تدریس کا سلسلہ معطل ہو گیا۔۱۹۵۱ء میں اس کالج میں تعلیمی سرگرمیوں کا پھر سے آغازہوا۔ اکتوبر ۱۹۵۵ء میں اس کالج کا درجہ بڑھا کر اسے ڈگری کالج کی حیثیت دے دی گئی۔۱۹۶۶ء میں منگلا ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے کالج نئے میرپور شہر میں منتقل ہوا۔ اکتوبر ۱۹۶۸ء میں اسے پوسٹ گریجویٹ کالج کا درجہ دیتے ہوئے یہاں ایم ۔اے‘اسلامیات کی تدریس ککا آغاز ہوا تاہم یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا۔ ۱۹۸۰ء میں آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی کے قیام سے میرپور میں بھی یونیورسٹی کالج کا آغاز ہوا تو ڈگری کلاسز یونیورسٹی کالج میں منتقل کر دی گئیںاور یہ کالج انٹر کالج کے طور پر کام کرنے لگامگر آزاد کشمیر یونیورسٹی زیادہ عرصہ تک ڈگری کلاسز اپنے پاس نہ رکھ سکی اور ۱۹۸۴ء میں دوبارہ اس کالج میں ڈگری کلاسز کا آغاز کیا گیا ۔۱۹۸۷ء میں یہاں بی کام کی کلاسز شروع کی گئیں اور اسی سال محکمہ تعلیم آزاد کشمیر نے جونئیرڈپلومہ تعلیم ِجسمانی کی کلاسز بھی اس کالج میں منتقل کر دیں۔ ۱۹۹۲ء میں کالج میں ایم۔ اے‘ انگریزی کا شعبہ قائم کیا گیا۔ ۲۰۰۳ء میں ایم اے اُردو کی کلاسز کا بھی آغاز ہوا۔نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق ۲۰۱۱ء میں چار سالہ بی۔ایس پروگرام کا آغاز کیا گیا ۔ اس پروگرام کے تحت اب کالج میں اُردو‘انگریزی‘باٹنی‘کیمسٹری اور فزکس کے مضامین میں چار سالہ بی۔ایس ‘اور بی۔بی۔اے کی تدریس جاری ہے۔(۵) کالج میں تقسیم ہند سے پہلے کالج کے آخری سال کے پرنسپل اور نامور اسکالر ڈاکٹر محمد رفیع الدین کے نام سے ۲۰۱۳ء میں کالج میں’’ ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرکز ِ تحقیقات ‘‘کا قیام عمل میں آیا۔اس مرکز ِ تحقیق کے تحت اب تک گیارہ مطبوعات سامنے آ چکی ہیں۔

’’سروش‘‘۔عہد بہ عہد

کالج کے قیام کے ابتدائی سال ہی کالج سے ایک انگریزی مجلے’’The Happy Warrior‘‘ کا اجرا کیا گیا(۶)  جو ۱۹۴۷ء میں کالج کی تقسیم ِ ہند کے ہنگاموںکے باعث ہونے والی بندش کے ساتھ ہی بند ہو گیا۔آزادی کے بعدجب کالج کا دوبارہ آغاز ہوا تو چند سال کے بعد ۱۹۵۸ء میں کالج کے مجلہ’’ سروش‘‘کا اجراء ہوا۔تب سے اب تک(۲۰۱۴ء تک)’’سروش‘‘  کے ۲۸ شمارے اور تین خصوصی شمارے سامنے آچکے ہیں جن میں سے ایک ’’سروش ۔میاں محمد بخش نمبر‘‘ ہے اور دوسرا ’’سروش۔جموں و کشمیر نمبر‘‘اور تیسرا’’سروش۔اقبالؒکے نام ‘‘ان تینوں خصوصی شماروں کو ’’سروش‘‘ کی سالانہ سلسلہ وار اشاعت سے الگ شائع کیا گیا ہے یعنی ان تینوں شماروں پر جلد نمبر درج نہیں کیے گئے۔ان کے علاوہ ’’سروش‘‘ کے تحقیقی مجلہ کا آغاز ۲۰۱۳ء میں ہوا اور جدید اصولِ تحقیق پر مبنی’’سروش‘‘ کے شش ماہی تحقیقی شمارے کا آغاز کیا گیاجس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے وضع کردہ تحقیقی اصولوں کی روشنی میں تحریریں شامل کی جاتی ہیں۔اس سلسلہ کے اب تک دو شمارے ہی سامنے آ سکے ہیں۔

’’سروش‘‘ صرف ایک علمی و ادبی مجلہ ہی نہیں بلکہ آزاد خطہء کشمیر میں ایک پورے عہد کی تاریخ کا امین بھی ہے۔’’سروش‘‘ کے مختلف شمارے وہ جھروکے ہیں جن سے جھانک کر اس خطہ میں مختلف ادوار کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔اس لیے ’’سروش ‘‘ کے موضوعاتی جائزے سے قبل اس کے تمام شماروں کا مجموعی اجمالی جائزہ پیش کرنا مناسب ہو گا۔

’’سروش‘‘  ۱۹۵۸ء

’’سروش‘‘ کا پہلا شمارہ نومبر۱۹۵۸ء میں منصہ شہود پر آیا۔یہ شمارہ اُردو اور انگریزی تحریروں کے دو حصوں پر مشتمل ہے۔حصہ اُردو ستاون۵۷ صفحات پر مشتمل ہے جس کے مدیرِ اعلیٰ پروفیسر عبدالعلیم صدیقی ہیں۔جو’’ سروش‘‘ کے بانی مدیر ِ اعلیٰ ہیں۔ مینیجنگ ایڈیٹر پروفیسر محمد صدیق اور طالب علم مدیر الطاف قریشی ہیں جو بعد میں نامور شاعر،ادیب ، ڈرامہ نگار اور ریڈیو پاکستان کے ممتاز پروڈیوسر رہے۔ حصہ انگریزی بیالیس ۴۲ صفحات پر مشتمل ہے جس کے سٹاف ایڈیٹر پروفیسر مارٹن گلبرٹ ، مینیجنگ ایڈیٹر پروفیسر محمد صدیق اور طالب علم مدیرکی حیثیت سے عبدالحمید نقشبندی کا نام درج ہے۔حصہ انگریزی میں اس وقت کے ناظم اعلیٰ تعلیمات ڈاکٹر نذیر الاسلام کی طرف سے ’’سروش‘‘ کے اجراء پر تہنیتی پیغام درج ہے۔جس میں انہوں نے اس مجلے کے کامیاب اجراء پر مبارک باد دی ہیاور اسے ایک ثقافتی خدمت قرار دیا ہے۔اس شمارے میں ایڈیٹوریل بورڈ کے علاوہ طلباء یونین ، مجلس ِ قرآن،ڈرامیٹک کلب اور مختلف کھیلوں کی ٹیموں کی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔

ادارئیے میںکالج کے قیام کی اہمیت اور اس کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے ’’سروش‘‘ کے اس پہلے شمارے کو متعارف کرایا گیا ہے۔اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کالج میگزین میں طلبہ اور اساتذہ کی تحریروں کو نمائندگی دی گئی ہے تا کہ اس کا مقصد پورا ہو سکے۔اداریے میں بتایا گیا ہے کہ لکھنے والوں کے محدود سے حلقے کے باوجود یہ کوشش کی جائے گی کہ نظم و نثر کا جو مجموعہ’’سروش‘‘ کی صورت میں پیش کیا جائے وہ تنوع اور معیار کے اعتبار سے قابل ِقدر ہو۔( ۷)

ایک مدت تک ۱۹۶۲ء کے شمارے کو ہی ’’سروش‘‘ کا اولین شمارہ سمجھا جاتا رہا۔ حتیٰ کہ ’’سروش گولڈن جوبلی نمبر۱۹۹۵ء‘‘کے اندرونی فلیپ پر ’’سروش‘‘ کے تمام شماروں کی جو ترتیب دی گئی ہے اس میں بھی ۱۹۶۲ء کے شمارے کو ہی اولیت حاصل ہے( ۸)تاہم اس برس پروفیسر خواجہ خورشید احمد نے اپنے والد گرا می سے ‘جوگورنمنٹ کالج میرپور کے اس دور کے طالب علم تھے‘ سے حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں ’’سروش‘‘ کا اولین شمارہ ڈھونڈ نکالا لیکن اس نسخے کے دونوں اطراف کے ابتدائی صفحات موجود نہ تھے ۔تا ہم یہ نسخہ اس اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل تھا کہ یہ ’’سروش‘‘ کے اولین شمارے کا اس وقت تک پہلا دستیاب نسخہ تھا ۔بعد میں گورنمنٹ کالج میرپور کے ایک سابق طالب علم اور پرنسپل ریٹائرڈ کرمداد خان صاحب نے اس اولین شمارے کا نسخہ اصل حالت میں مہیا کیا ۔جس کی عکسی نقول پروفیسر غازی علم الدین صاحب نے کالج لائبریری کو فراہم کیں۔ اس طرح اس شمارہ کے سامنے آنے سے واضح ہو گیا کہ یہی ’’سروش‘‘ کا پہلا مطبوعہ شمارہ تھا ۔ اس سے قبل اگرچہ دو تین دفعہ ’’سروش‘‘ کی طباعت کے لیے مواد جمع کیا گیا لیکن وہ بوجوہ چھپ نہ سکا(۹) 

’’سروش‘‘  ۱۹۶۲ء

یہ ’’سروش‘‘ کا دوسرا شمار ہ ہے۔ جو ستمبر ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا۔یہ شمارہ بھی اُردو اور انگریزی تحریروں کے دو حصوں پر مشتمل ہے۔ نگران پروفیسر عبدالعلیم صدیقی ہیں۔مینیجنگ ایڈیٹر پروفیسر محمد صدیق ،ایڈیٹر اسلم لون اور جوائنٹ ایڈیٹر کے طور پر سائرہ شبنم کا نام درج ہے۔حصہ انگریزی کے ایڈیٹر پروفیسر ظفر عباس نقوی اور پروفیسر خالد محمود ہیں جب کہ طلبہ مدیران میں محمد شریف سلہریا اور اقبال مرزا کے نام موجود ہیں۔یہ شمارہ پرنسپل شیخ محمود احمد کی سرپرستی میں شائع کیا گیا۔حصہ اُردو اناسی ۷۹ صفحات پر جب کہ حصہ انگریزی پچپن ۵۵ صفحات پر مشتمل ہے۔حصہ اُردو کا سرورق سادہ ہے جس پر مجلے کا نام درمیان میں تاریخ ِ اشاعت اور نیچے کالج کا نام درج ہے۔حصہ انگریزی کے سرورق پر درمیان میں کالج کا مونو گرام بنایا گیا ہے۔ حصہ انگریزی میں کالج کے پراکٹوریل گروپ، بزم ِ ادب ، سٹوڈنٹ یونین کے ذمہ داران اور اتھلیٹک گروپ کے ارکان کی تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں۔

اداریے کا عنوان ’’پہلی بات‘‘ ہے۔جس میں پنجاب یونیورسٹی کےاردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حوالہ سے کیے گئے اقدامات کو بنیاد بنا کر کہا گیا ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے سلسلہ میں جس احتیاط سے کام لے رہی ہیںوہ ضرورت سےکچھ زیادہ ہےاور تعلیمی ترقی میں رکاوٗٹ کا سبب بن رہی ہے۔اداریے میں بتایا گیا ہے کہ اردو زبان علمی اصطلاحات اور کتابوں کے معاملے میں اتنی کم مایہ نہیں ہے جتنا سمجھا جا رہا ہے۔دلی کالج اور عثمانیہ یونیورسٹی میں یہ ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا ثبوت دے چکی ہے۔اداریے میں بہت مدلل اور مفصل انداز میں اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حوالہ سے بات کرتے ہوٗے بتایا گیا ہے کہ ذریعہ تعلیم کو تبدیل کرنے میں تاخیر سے کام لینا معیار ِ تعلیم کو پست رکھنے پر اصرار کرنا ہے۔(۱۰)

’’سروش‘‘  ۱۹۶۵ء

’’سروش‘‘ کا تیسرا شمارہ مئی ۱۹۶۵ء مں شائع ہوا۔پچھلے شماروں کی طرح حصہ انگریزی و اُردو کی تقسیم برقرار ہے۔حصہ اُردو کے نگران پروفیسر عبدالعلیم صدیقی ، مینیجنگ ایڈیٹر پروفیسر محمد صدیق ہیں جب کہ ایڈیٹر طاہرہ شاہین اور جوائنٹ ایڈیٹر جاوید نظامی ہیں۔حصہ انگریزی کے ایڈیٹر پروفیسر محمد اسلم ، مینیجنگ ایڈیٹر پروفیسر محمد صدیق ہیں جب کہ طلبہ مدیران میں طاہر محمود اور محمد اسلم کے نام درج ہیں۔حصہ اُردو ستاسی ۸۷ صفحات پر مشتمل ہے۔جس میں پہلی دفعہ مختلف تحریروں کی درجہ بندی مضمون ، نظم، ڈراما، افسانہ ،انشائیہ ، غزل ، وغیرہ کے عنوانات سے کی گئی ہے۔اداریے میں اُردو کو دفتری زبان قرار دینے کے حوالے سے کیے گئے اعتراضات کو رد کیا گیا ہے۔ حصہ انگریزی اُنچاس ۴۹صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں مختلف کھیلوں کی تصاویر کے ساتھ ساتھ تقریری مقابلے اور پراکٹوریل گروپ کی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔

اداریے کا عنوان ’’پہلی بات ‘‘ ہے جس میں نظام ِتعلیم میں اصلاح اور اسے قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوششوں پر زور دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اُردو کو ذریعہ تعلیم بنا دینے سے بھی اس وقت تک کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہو گا ۔قومی زبان کو اس کا صحیح مقام دلانے کے لیےیہ بھی ضروری ہے کہ اسے بلا تاخیر دفتروں میں سرکاری و دفتری زبان کے طور پر بھی رائج کر دیا جائے۔اداریے میں اس اُمید کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتیں اُردو کو دفتری زبان بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گی۔( ۱۱)

’’سروش‘‘ ۱۹۶۶ء

یہ شمارہ ’’سروش‘‘ کا چوتھا شمارہ ہے جو ستمبر ۱۹۶۶ء میں شائع ہوا۔اس شمارے کا سرورق ہلکے نیلے رنگ کا ہے جو ’’سروش‘‘ کے کسی شمارے کا پہلا رنگین سرورق ہے۔اُردو اور انگریزی حصوں کے سرورق پر ادارہ کا مونو گرام موجود ہے۔حصہ اُردو کے نگران پروفیسر عبدالعلیم صدیقی ، منتظم پروفیسر محمد صدیق مغل جب کہ مدیر نیاز احمد اور نائب مدیر تسنیم مرزا ہیں۔حصہ اُردو میں مختلف تحریروں کو اصناف کے اعتبار سے عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان ابواب میں طنز و مزاح کا اضافہ کیا گیا ہے۔حصہ انگریزی کی بجائے پہلی دفعہ حصہ اُردو میں تصاویر شامل کی گئی ہیں۔حصۃ اُردو کے صفحات و مواد کی ضخامت میں اضافہ اور حصہ انگریزی میں نسبتاََ کم مواد شامل کیا گیا ہے۔حصہ اُردو اٹھانوے ۹۸ اور حصہ انگریزی چونتیس ۳۴ صفحات پر مشتمل ہے۔

اداریے کا عنوان ’’حرف ِ اولیں‘‘ہے جس میں مذکورہ تعلیمی سال کو بہت اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہےکہ اس میں کالج کی نئی عمارت میں منتقلی ،اساتذہ کے لیے رہائشی کالونی کی تعمیر اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر حمید احمد خان کی کالج آمد جیسے واقعات شامل ہیں۔اُردو کے نفاذ کے سلسلہ میں اداریے میں بہت اُمید کا اظہار کیا گیا ہےکہ تعلیمی کمیشن کی رپورٹ کے بعد تعلیمی اداروں میں اُردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی کوششوں کا آغاز کر دیا گیا ہےاور یہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ بہت جلد اُردو زبان کو اس کا اصل مقام حاصل ہو جائے گا۔  (۲۱)

’’سروش‘‘  ۱۹۶۷ء

یہ شمارہ ہرے رنگ کے سرورق کا حامل ہے۔سن ِ اشاعت ستمبر ۱۹۶۷ء درج ہے۔صفحات کی تعداد بیاسی ہے۔اس شمار ے میں پہلی دفعہ حصہ انگریزی شامل نہیں کیا گیا ۔شمارے کے نگران پروفیسر عبدالعلیم صدیقی ہیں۔منتظم  پروفیسر ڈاکٹر ضیا اللہ خان ہیں۔اس شمارے کے مدیر جاوید نظامی ہیں اور نائب مدیر کے طور پر فیض اللہ چیمہ کا نام درج ہے۔اس شمارے میں مضامین ،نظمیں غزلیں،تنقیدی مقالات ،افسانے اور آپ بیتیاں شامل ہیں۔کالج کے شب و روز کے عنوان سے کالج کی سرگرمیوں کی تفصیل جمع کی گئی ہے۔

اداریے میں آزاد کشمیر میں اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہونے پر حکومت ِ آزاد کشمیر کے لیے اظہار ِ تشکر کیا گیا ہے۔اور ساتھ ہی اُردو کو دفتری زبان کے طور پر پیش آمدہ ابتدائی مشکلات یعنی اُردو ٹائپ رائٹرز کی عدم فراہمی کے باوجود ہر محکمے میں دفاتر کی سطح پر خوش اُسلوبی سے کام کرنے پر جریدہ و غیر جریدہ ملازمین کی مخلصانہ کوششوں کو سراہا گیا ہے۔’’سروش‘‘ کے اس شمارے میں آپ بیتی کے عنوان سے ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا ہے(۱۳)

’’سروش‘‘  ۱۹۶۸ء

یہ ’’سروش‘‘ کا چھٹا شمارہ ہے جو ستمبر ۱۹۶۸ء میں شائع ہوا ۔سرورق کا رنگ پیلا ہے۔حصہ انگریزی کو اس دفعہ پھر شامل کیا گیا ہے۔ حصہ اُردو چوراسی ۸۴صفحات پر جب کہ حصہ انگریزی بیالیس ۴۲ صفحات پر مشتمل ہے۔حصہ اُردو کے نگران پروفیسر عبدالواحد قریشی ، منتظم پروفیسر ڈاکٹر ضیا اللہ خان اور مدیرہ کی حیثیت سے شاہدہ صدف کا نام درج ہے۔حصہ انگریزی میں ایڈیٹرپروفیسر عبدالحمید نقشبندی ، مینیجنگ ایڈیٹر پروفیسر ڈاکٹر ضیا اللہ خان اور طلبہ مدیران میں طارق حسن فاروقی اور محمد عقیل خالد کے نام درج ہیں۔اداریے کے علاوہ مضامین، نظمیں ،غزلیںافسانے ، طنز و مزاح اور ڈرامہ بھی اس شمارے میں شامل ہے۔

اداریے کا عنوان’’نظام ِ امتحانات‘‘ ہے جس میں مروجہ امتحانی نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہےاور یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ امتحان کا سالانہ طریق ِ کار ختم ہونا چاہیے۔سہ ماہی یا ششماہی امتحانات کو رواج دیا جائے اور نصاب کی تقسیم اسی اعتبار سے کی جائے تا کہ طلبہ کے ذہن پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور وہ سال کے آخر تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کی بجائےمطالعہ میں مصروف رہیں گے۔ (۱۴)

’’سروش‘‘  ۱۹۷۱ء

’’سروش‘‘ کا یہ ساتواں شمارہ کیسری رنگ کے سرورق میں شائع کیا گیا ہے۔اس شمارے میں ایک مرتبہ پھر انگریزی تحریروں پر مبنی حصہ شامل نہیں کیا گیا ہے۔۔اس شمارے میں بھی اہم سرگرمیوں کی تصاویر شائع کی گئی ہیں۔یہ شمارہ اٹھاسی صفحات پر مشتمل ہے۔اس شمارے میں اندرونی سرورق پر سرپرست کے طور پر پرنسپل عبداللطیف انصاری کا نام درج ہے۔نگران و منتظم محمد اکرم طاہر ؔہیں جب کہ مجلس ادارت میں ساجدہ افضل ، طالب حسین، شاہدہ وحید اور سید اقبال مجتبیٰ شامل ہیں۔

 اداریے کا عنوان ’’ذریعہ اظہار۔اُردو‘‘ ہے جس میں اُردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئےکہا گیا ہے کہ مغربی پاکستان،مشرقی پاکستان اور آزاد کشمیر کے کسی حصہ کی مادری زبان اُردو نہیں ہے تا ہم علاقائی زبانوں کے الفاظ کثرت سے موجود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اُردو ان تمام علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔اداریے میں آزاد کشمیر میں اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیے جانے کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ اس کے نتائج بہت حوصلہ افزا ثابت ہوئے ہیں۔( ۱۵)

’’سروش‘‘ ۱۹۷۲ء

’’سروش‘‘ کا یہ شمارہ نیلے رنگ کے سرورق کا حامل ہے۔ یہ شمارہ بھی صرف اُردو تحریروں پر مشتمل ہے۔اس کے نگران مدیر پروفیسر محمد اکرم طاہرؔ ہیں جب کہ طلباء مدیران میں عطا محی الدین قادری، عبدالمنان گوہر، بشیر احمد جاوید اور محمد یٰسین آسی کے نام درج ہیں۔اس شمارے میں صدر ِ آزاد کشمیر کا خصوصی انٹرویو اور نائب ناظم ِ تعلیمات عبداللطیف انصاری کا مضمون’’اساتذہ کے لیے پیشہ ورانہ ضابطہ اخلاق‘‘ بھی شامل ہے۔۱۹۷۱ء کی جنگ اور اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالہ سے پروفیسر محمد اکرم طاہرؔ کی طویل نظم’’سقوط ِ ڈھاکہ‘‘ بھی شامل کی گئی ہے۔ یہ شمارہ ایک سو چوبیس صفحات پر مشتمل ہے۔

اداریے کا عنوان ’’نئی نسل۔ نئی ذمہ داری ‘‘ہے۔اداریے میں بحالی جمہوریت کے لیے طلبہ کے کردار کو سراہتے ہوئے اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ طلبہ آپسی اختلاف بھلا کراپنی صفوں کو ایسے شر پسند عناصر سے پاک کریںجو جلائو گھیرائو کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ صدر آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان کے ’’سروش‘‘ کے لیے خصوصی انٹرویوپر اُن سے اظہار ِ تشکر کیا گیا ہے اور ادب کی دنیا میں بعض نامور ہستیوں کے اُفق سے غائب ہو جانے پر اظہار ِ تعزیت کیا گیا ہے۔ ان ہستیوں میں استاد یوسف ظفر ، ناصر کاظمی ، ہدایت اللہ اختر اور پیر فضل گجراتی شامل ہیں۔( ۱۶)

’’سروش‘‘  ۱۹۷۳ء

یہ ’’سروش‘‘ کا نو ّاں شمارہ ہے۔سرورق کا رنگ نیلا ہے۔یہ شمارہ پرنسپل گورنمنٹ کالج میرپور ڈاکٹر سید نذیر احمد شاہ کی سرپرستی میں شائع ہوا جن کی تصویر پہلے صفحہ پر دی گئی ہے۔اس شمارے کے نگران و منتظم کے طور پر پروفیسر عبدالواحد قریشی اور طلبہ مدیران میں عبدالغفار انقلابی، جاوید بشیر، طارق رفیق اور آفتاب احمد میر ؔ کے نام درج ہیں۔ ان طلبہ مدیران میں جاوید بشیر کا نام سہواََ لکھا گیا ہے۔ موصوف کا اصل نام بشیر احمد جاوید ہے جو پچھلے شمارے میں بھی طلبہ مدیران میں شامل رہے ہیں۔اس شمارےمیں پہلی بار مختلف ابواب کے عنوانات کو رنگین کاغذ اور خوبصورت ڈیزائن میں پیش کیا گیا ہے جو اس شمارے کو زیادہ دل کشی اور رنگینی عطا کرتے ہیں۔یہ شمارہ ایک سو اکتیس ۱۳۱ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ شمارہ بھی حصہ انگریزی کی تحریروں سے خالی ہے۔

اداریے کا عنوان ’’پہلی بات‘‘ ہے جس میں یہ باور کیا گیا ہے کہ مجلہ ’’سروش‘‘ میں چھپنے والی تحریریں منجھے ہوئے ادیبوں کی بجائے طلباء کی ہیں اس لیے ان میں ادبی پختگی دکھائی دے یا نہ دے لیکن نیا عزم اور نئی لگن ضرور جھلکتی ہے۔اداریے میں کالج کے پرنسپل کا ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے فروغ پر شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ (۱۷)

’’سروش‘‘  ۱۹۷۵ء

یہ ’’سروش‘‘ کا منصہ شہود پر آنے والا دسواں شمارہ ہے۔سرورق سادہ ہے جس پر سرخ روشنائی سے مجلے کا نام تحریر ہے۔یہ مجلہ بھی پرنسپل ڈاکٹر سید نذیر شاہ کی سرپرستی میں شائع کیا گیا ۔اس مجلے کے نگران و منتظم پروفیسر محمد حنیف خواجہ ، مدیر طارق رفیق اور نائب مدیر عبدالعظیم رتیال ہیں۔یہ مجلہ بھی صرف اُردو تحریروں پر مشتمل ہے ۔ صفحات کی تعداد ایک سو اڑتیس ہے۔ پہلے صفحے پر اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دورہ کالج کے موقع پر پرنسپل ڈاکٹر سید نذیر شاہ کے ساتھ لی گئی تصویر موجود ہے۔اندرونی صفحات میں اس وقت کی خاتون ِ اول بیگم نصرت بھٹو کی کالج آمد پرتصاویر شائع کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ کھیلوں اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں کی تصاویر بھی موجود ہیں۔

اداریے کا عنوان ’’پہلی بات ‘‘ ہے جس میں کاغذ کی قیمت بڑھ جانے کی وجہ سے ’’سروش‘‘ کی اشاعت پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ طلبا میں نامور شعرا کے کلام کو اپنے نام سے پیش کرنے کی قبیح حرکت کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امسال بھی ایسے طلبہ کی تعداداکچھ کم نہیں جنھوں نے غالب،اقبال اور جمیل الدین عالی کی مشہور غزلیات اور نظمیں اپنے نام سے منسوب کر کے اشاعت کیلیے بھیج دیں۔اس رجحان کی بڑی وجہ طلبا کی سہل پسندی کو قرار دیا گیا ہے اور انھیں اس عمل سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے( ۱۸)

’’سروش‘‘  ۱۹۷۶ء  :

نیلے رنگ کے سرورق میں شائع ہونے والا یہ شمارہ ’’سروش‘‘ کا گیارہواں شمارہ ہے۔اس کے سرپرست پرنسپل راجہ محمد اسلم خان ہیں۔نگران و منتظم پروفیسر محمد حنیف خواجہ ، مدیر طارق رفیق اور نائب مدیر عبدالمناف ہیں۔صفحہ اول پر قائد ِ اعظم محمد علی جناح کا پورٹریٹ دیا گیا ہے۔

اداریے کا عنوان’’پہلی بات ‘‘ ہے جس میں حکومت آزاد کشمیر کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں فنڈز بحال کر دیے گئے ہیں اور اب ’’ سروش‘‘ مالی مجبوریوں کا شکار نہیں بن سکے گا۔اس کے علاوہ اداریے میں قائد ِ اعظم کا یوم ِ پیدائش شایان ِ شان طریقے سے منانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔آخر میں سابق پرنسپل ڈاکٹر سید نذیر شاہ کو ترقی پا کر چئیرمین تعلیمی بورڈ بننے پر مبارک باد دی گئی ہے۔مواد کی ترتیب روایت کے مطابق ہے تاہم حصہ انگریزی کا اس شمارے میں بھی اہتمام نہیں کیا گیا ۔ یہ شمارہ کل ستاسی صفحات پر مشتمل ہے۔ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی تصاویر ان صفحات کے علاوہ ہیں(۱۹)

’’سروش‘‘  ۱۹۷۷ء

’’سروش‘‘ کا یہ بارہواں شمارہ زرد رنگ کے سرورق کا حامل ہے۔یہ شمارہ دسمبر ۱۹۷۷ء میں شائع ہوا ۔ سرپرست ،پرنسپل راجہ محمد اسلم خان ہیں۔نگران و منتظم پروفیسر محمدحنیف خواجہ ، مدیر ذاکر سلیمی اور نائب مدیرایم۔اے۔منیر ہیں۔صفحہ اول پر حضرت علامہ محمد اقبالؒکی تصویر دی گئی ہے ۔ہر باب سے پہلے باب کا عنوان اور قلمکاروں کے نام رنگین صفحے پر لکھے گئے ہیں۔

اداریے کا عنوان ’’پہلی بات‘‘ ہے اور اس میں علامہ اقبال ؒ کے صد سالہ جشن ِ ولادت کے سلسلہ میں منعقد ہونے والی تقاریب کے ذکر کے ساتھ ساتھ ۔ معروف شاعر و ادیب ابن ِ انشاء کی وفات پر اظہار ِ افسوس کیا گیا ہے۔ اس شمارے میں علامہ اقبال ؒ کے بارے میں لکھی گئی تحریروں کو اقبالیات کے عنوان سے پیش کیا گیاہے۔’’سروش‘‘ کے اس شمارے میں بھی انگریزی تحریروں پر مشتمل حصہ موجود نہیں۔یہ شمارہ ایک سو چھے صفحات پر مشتمل ہے( ۲۰)

’’سروش‘‘  ۱۹۷۹ء۔۱۹۸۰ء

 یہ ’’سروش‘‘ کا تیرہواں شمارہ ہے۔سرورق کا رنگ نیلا ہے۔اس شمارے کے نگران و منتظم پروفیسر محمد حنیف خواجہ ہیں ۔جب کہ مدیر طارق محمود اور نائب مدیر زبیر اختر طاہر ہیں۔

اداریے کا عنوان ’’پہلی بات‘‘ ہے ا ور اس میں پاکستان میں اُردو زبان کے نفاذ کی کوششوں کے حوالہ سے مخلص افراد اور اداروں سے تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ آزاد کشمیر کی دفتری و سرکاری زبان اُردو ہے جو انتہائی خوش آئند بات ہے ۔ حکومت ِ پاکستان کو بھی اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔اداریے میں بتایا گیا ہے کہ ’’سروش‘‘ کے اداریوں میں متعدد بار اردو کے فروغ اور اس کی ترقی کے لیے حکومت کی توجہ مبذول کرائی جاتی رہی ہے مگر کسی ایسی تجویز پر عمل درآمد نہ ہونے دیا گیا جس سے اُردو کے نفاذ کو عملاََ تقویت پہنچتی۔

 انگریزی تحریروں پر مبنی حصہ اس شمارے میں بھی شامل نہیں کیا گیا۔کل صفحات ایک سو چار ہیں۔ مختلف نوعیت کی تحریروں کو حسب ِ روایت الگ الگ ابواب میں سمیٹا گیا ہے۔اس دفعہ بھی علامہ اقبالؒ سے متعلق تحریروں کو اقبالیات کے باب میں یکجا کیا گیا ہے۔کالج ایجو کیٹرز کلب اور ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کی تصاویر شائع کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے ( ۲۱)

’’سروش‘‘  ۱۹۸۳ء

سروش کا یہ چودہواں شمارہ پرنسپل پروفیسر محمد سعید ظفر کی سرپرستی میں شائع ہوا۔سرورق کا رنگ نیلا ہے ۔ اس شمارے کے نگران مدیر پروفیسر محمد عرفان چوہدری ہیںجب کہ طالب علم مدیر عابد حسین عابد اور نائب مدیر نایاب رفیق ہیں۔حسب ِ روایت مقالات و مضامین ، انشائیے،نظم و غزل، اور متفرقات کے عنوان سے تحریروں کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ہم نصابی اور غیر نسابی سرگرمیوں کی تصاویر پہلے شماروں کی نسبت زیادہ شائع کی گئی ہیں۔

اداریے کا عنوان ’’حرف ِ آغاز ‘‘ہے جس میں ’’سروش‘‘ میں شامل طلباء کی تحریروں کو اُن کے ذوق و شوق کا اظہار کہا گیا ہے۔اُردو زبان کو پاکستان میں سرکاری و دفتری زبان کی حیثیت اختیار کرنے میں حائل مشکلات کے حوالہ سے مقتدرہ قومی زبان کے چئرمین جناب ڈاکٹر وحید قریشی کی تجاویز کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے قومی زبان کے عملی مسائل پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہوئے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ اردوکو سرکاری دفاتر میں خط و کتابت کا ذریعہ بنایا جائےگا۔ مجلہ کے آخر میں ’’کالج کے روز و شب‘‘ کے عنوان سے کالج کے پرنسپل پروفیسر محمد سعید ظفر کی تحریر شامل ہے۔یہ مجلہ ایک سو سینتیس صفحات پر مشتمل ہے(۲۲)

’’سروش‘‘  ۱۹۹۰ء۔۱۹۹۱ء

اس شمارے کا سرورق جامنی رنگ کا ہے ۔ یہ ’’سروش‘‘ کا پندرہواں شمارہ ہے۔یہ شمارہ پرنسپل  عبدالواحد قریشی کی سرپرستی میں شائع ہوا۔ اس شمارے میں ایک طویل مدت کے بعد پھر انگریزی تحریروں پر مشتمل حصہ کو شامل ِ اشاعت کیا گیا ہے جو صرف ۱۰ دس صفحات پر مشتمل ہے۔حصہ انگریزی کے مدیران پروفیسر محمد ارشد مرزا اور پروفیسر عبدالقیوم قریشی ہیں۔حصہ اُردو ایک سو نوے  ۱۹۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ ضخامت کے اعتبار سے یہ ’’سروش‘‘ کے اس وقت تک چھپنے والے شماروں میں سب سے زیادہ ضخیم ہے۔حصہ اُردو کے نگران پروفیسر محمد عرفان چوہدری ، معاون مدیران میں پروفیسر غازی علم الدین اور فضل حسین قمر جرال کامرس انسٹرکٹر کے نام درج ہیں۔طالب علم مدیران ساجد یوسف اور فیاض احمد ہیں۔یہ شمارہ اس اعتبار سے پچھلے تمام شماروں میں ممتاز ہے کہ اس میں پہلی دفعہ رنگین تصاویر شائع کی گئی ہیں۔

اداریے کا عنوان ’’پہلی بات ‘‘ ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتاب ’’قومی زبان ۔یکجہتی ،نفاذ اور مسائل‘‘ کی تقریب ِ رُو نمائی جو اسلام آباد میں ہوئی اس میں نامور ادیبوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے اُردو زبان کو پاکستان میں سرکاری زبان کا درجہ نہ دینے کو آئین سے بغاوت قرار دیا ہے۔اس کے علاوہ اداریے میں حصہ انگریزی کے طویل تعطل کی وجوہات بیان کرتے ہوئے آئندہ اس کے تسلسل کو یقینی بنانے کی اُمید ظاہر کی گئی ہے۔تحریروں کے تنوع اور معیار کے اعتبار سے یہ شمارہ گزشتہ شماروں سے خاصا بہتر دکھائی دیتا ہے۔ حصہ انگریزی کی طرف کے سرورق پر کالج کی عمارت کی تصویر دی گئی ہے( ۲۳)

’’سروش‘‘ ۱۹۹۴ء ۔۱۹۹۵ء(گولڈن جوبلی نمبر۔ حصہ اوّل)

۱۹۹۴ء میں کالج کے قیام کے پچاس سال مکمل ہونے پر منعقدہ گولڈن جوبلی تقریبات کے حوالہ سے گورنمنٹ کالج میرپور کی پچاس سالہ تاریخ کو محفوظ کرنے کی غرض سے ’’سروش‘‘ کا یہ خصوصی شمارہ شائع کیا گیا ۔اس شمارے کا سرورق پہلی دفعہ چار رنگوں میں ڈیزائن کرایا گیا جو گولڈن جوبلی کے حوالہ سے آتشبازی کے مناظر سے رنگین ہے۔یہ شمارہ ’’سروش‘‘ کے اس وقت تک شائع ہونے والے شماروں میں سب سے ضخیم ہے۔یہ شمارہ ’’سروش‘‘ کئی ایک حوالوں سے بہت تاریخی نوعیت کا شمارہ ہے۔اس میں پہلی مرتبہ اب تک کے ’’سروش‘‘ کے تمام مطبوعہ شماروں کی فہرست جاری کی گئی ہے ۔چوں کہ اس وقت تک ۱۹۵۸ء کا شمارہ دستیاب نہیں ہوا تھا اس لیے اس شمارے میں ۱۹۶۲ء کے شمارے کو پہلے شمارے کے طور پر درج کیا گیا ہے۔یہ شمارہ پرنسپل پروفیسر محمد سعید ظفر کی سرپرستی میں شائع ہوا۔مدیران میں پروفیسر محمد عرفان چودھری ، پروفیسر محمد عارف خان ، پروفیسر غازی علم الدین اور قمر جرال کامرس انسٹرکٹر کے نام دیے گئے ہیں۔ طلباء مدیران میں سردار خالد پرویز، مرزا خالد محمود ، سردار عبدالوحید ، راجہ محمد مقصود ، نوید الحق ، آصف اقبال ، رازق محمود مغل ، قدیر احمد ، محمد صغیر اور محمد کبیر کے نام درج ہیں۔

اداریے کا عنوان ’’پہلے اسے پڑھیے‘‘ ہے ۔ جس میں اس تاریخی نمبر کی اشاعت کے حوالہ سے پیش آمدہ مشکلات کا اظہار جس میں اس تاریخی نمبر کی اشاعت کے حوالہ سے پیش آمدہ مشکلات کا اظہار کیا گیا ہے اور معروضی انداز میں اس شمارے کی اشاعت کے مقاصد گنوائے گئے ہیں۔اس شمارے کے آغاز میں صدر آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر ، وزیراعظم، سیکرٹری تعلیم ، ناظم اعلیٰ تعلیمات کے ’’سروش‘‘ سے متعلق پیغامات درج کیے گئے ہیں۔شمارے میںانگریزی تحریروں پر مشتمل حصہ بھی شامل کیا گیا ہے۔دونوں حصوں کے اندرونی سرورق پر گورنمنٹ کالج میرپور کی عمارت کی رنگین تصویر بھی شائع کی گئی ہے جو اس پر شکوہ عمارت کی سطوت کی عکاس ہے۔حصہ انگریزی کے ادارتی بورڈ میں پروفیسر راجہ محمد لطیف خان مدیر، طالب علم مدیرسردار خالد پرویز اور معاون مدیر طارق ایوب ہیں۔اُردو تحریروں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ گورنمنٹ کالج میرپور کے سابق اساتذہ اور طلباء کی یادداشتوں پر مبنی ہے۔جس کا عنوان ’’میرپور کالج کے پچاس سال‘‘ رکھا گیا ہے۔اس حصے کے آخر میں سابق اساتذہ و طلباء کی ’’سروش‘‘ میں شامل ہونے والی تحریروں میں سے ایک انتخاب شائع کیا گیا ہے۔اس حصہ کے آخر میں ’’تصویریات‘‘ کے عنوان سے ایک انتہائی اہم باب پروفیسر غازی علم الدین کی کاوشوں سے مرتب کیا گیا ہے جس میں گورنمنٹ کالج میرپور کے سابق طلباء و اساتذہ کی تصاویر پیش کی گئی ہیں ۔ یہ تاریخی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ حصہ دوم میں حسب ِ روایت مختلف تخلیقات کو شامل ِ اشاعت کیا گیا ہے جس میں طلباء اور اساتذہ کی تحریریں شامل ہیں۔ آخر میں ’’میرپوریات‘‘کے عنوان سے میرپورسے متعلق تاریخی تحریریں جمع کی گئی ہیں۔یہ شمارہ سابقہ شماروں سے ضخامت ، مواد اور معیار ہر اعتبار سے نمایاں ہے۔حصہ اُردو پانچ سو بیس اور حصہ انگریزی ایک سو بیس صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’سروش‘‘ کے اس وقت تک چھپنے والے تمام شماروں میں یہ شمارہ حصہ اُردو اور انگریزی دونوں کی ضخامت کے لحاظ سے ضخیم ترین ہے(  ۲۴)

’’سروش‘‘ ۱۹۹۶ء ( گولڈن جوبلی نمبر حصہ دوم)

’’سروش‘‘ کا یہ شمارہ گورنمنٹ کالج میرپور کی گولڈن جوبلی تقریبات کے سلسلہ میں شائع ہونے والے خاص نمبر کا دوسرا حصہ ہے ۔ اس شمارے کا سرورق سبز رنگ کا ہے جس پر خطاطی کے خوبصورت انداز سے مجلے کا نام ڈیزائن کیا گیا ہے۔جس کے درمیان میں کالج کا مونو گرام دیا گیا ہے۔سرورق کے اندرونی صفحہ پر گورنمنٹ کالج میرپور کی عمارت کی رنگین تصویر دی گئی ہے جس کے بالائی حصہ پر سروش کے اب تک شائع ہونے والے تمام شماروں کی ترتیب درج ہے۔اس خاکہ کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں ۱۹۵۸ء کے شمارے کے دریافت ہونے کے باعث اس وقت تک چھپنے والے تمام شماروں کا ریکارڈ موجود ہے۔جب کہ گذشتہ برس شائع ہونے والے شمارے میں ۱۹۶۲ء کے ’’سروش‘‘ کو ہی اوّل شمارے کے طور پر درج کیا گیا تھا۔اس خاکے میں ’’سروش‘‘ کے تمام شماروں کے مدیران ، معاون مدیران اور طلباء مدیران کے نام دیے گئے ہیں حصہ انگریزی کے شروع میں بھی اب تک کے تمام شماروں میں شامل ہونے والے حصہ انگریزی کے مدیران اور معاون و طلباء مدیران کی فہرست دی گئی ہے۔اس شمارے کو بھی حصہ اُردو اور انگریزی میں تقسیم کیا گیا ہے۔حصہ اُردو تین سو اڑتیس صفحات پر مشتمل ہے جس کے مدیر ان میں پروفیسر سعید ثاقب ، پروفیسر غازی علم الدین اور پروفیسرر منیر احمد یزدانی کے نام شامل ہیں جب کہ طلباء مدیران میں راجہ محمد احمد خان ، محمد جمیل اور معاون مدیران میں انظر محمود اور فیصل ریاض شامل ہیں ۔

اداریے کا عنوان ’’نوائے سروش‘‘ ہے۔جس میں ’’سروش‘‘ گولڈن جوبلی نمبر حصہ اوّل کی ادبی حلقوں میں پذیرائی کو سراہا گیا ہے۔اس کے علاوہ ان تمام شخصیات کا شکریہ ادا کیا گیا ہے جو کسی نہ کسی طور میرپور کالج سے وابستہ رہیں اور انہوں نے اپنی یادداشتوں کو ’’سروش ‘‘ کے لیے عنایت کیا۔اداریے میں طلباء میں تحریک آزادی کشمیر کے لیے فکری بیداری اُجاگر کرنے کے سلسلہ میں ’’سروش‘‘ کی کاوشوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔اس شمارے میں بھی علامہ اقبالؒ کے حوالہ سے شامل ہونے والی تحریروں کو اقبالیات کے باب میں رکھا گیا ہے۔حصہ انگریزی ایک سو انتیس صفحات پر مشتمل ہے جس کے ایڈیٹر پروفیسر راجہ محمد لطیف خان اور جوائنٹ ایڈیٹر طارق ایوب ہیں جب کہ معاون مدیران میں رفعت پروین اور راجہ محمد احمد خان کے نام درج ہیں۔اس شمارے میں حصہ انگریزی میں بھی مختلف تحریروں کی درجہ بندی کر کے مختلف اصناف کی ذیل میں اُن کی ابواب بندی کی گئی ہے۔ یہ شمارہ پرنسپل محمد سعید ظفر کی سرپرستی میں شائع کیا گیا (۲۵)

’’سروش‘‘ ۱۹۹۷ء ۔۱۹۹۸ء

یہ شمارہ چار رنگوں کے دیدہ زیب سرورق کا حامل ہے ۔ یہ ’’سروش‘‘ کا اٹھارہواں شمارہ ہے جو پاکستان و آزاد کشمیر کے قیام کے پچاس سال مکمل ہونے پر خصوصی نمبر کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔سرورق کے اندرونی حصہ پر اس شمارے کا انتساب پاکستان اور آزاد کشمیر کی تحریک ِ آزادی کے اُن شہداء کے نام کیا گیا ہے جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے سے کر ہمیں آزادی کی دولت سے مالا مال کیا ۔ پہلے صفحے پر ’’سروش سال بہ سال‘‘ کے عنوان سے ۱۹۵۸ء تا ۱۹۹۸ء  تمام شماروں کا ادارتی خاکہ دیا گیا ہے ۔ جس میں سال ِ اشاعت ، سرپرست ، نگران و منتظم ، مدیر ارو معاون مدیر کے کالم موجود ہیں۔

 اداریے کا عنوان ’’نوائے سروش‘‘ ہے اور اس میں ’’سروش‘‘ کے پچھلے دونوں شماروں یعنی گولڈن جوبلی نمبر حصہ اوّل و دوم کی پذیرائی پر اظہار ِ تشکر کیا گیا ہے۔ اداریے میں اُردو زبان کے لیے سرسید احمد خان کی خدمات کو سراہتے ہوئے اس سال کو قومی مصلح اور مفکر کا سال بھی قرار دیا گیا ہے۔اس سال سرسید کا سوواں یوم ِ وفات بھی منایا گیا۔اس کے علاوہ مرزا اسد اللہ خان غالب ؔ کے دو سو سالہ جشن ِ ولادت کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔اسی سال ۲۸مئی کو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے پوری دنیا میں ساتویں اور اُمت ِ مسلمہ کی پہلی ایٹمی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل کیا اس پر اداریے میں اُن تمام اداروں اور سائنسدانوں کو مبارک باد دی گئی ہے جو ان کاوشوں میں شامل رہے۔اس دفعہ اقبال ؒ سے متعلق تحریروں کے باب کو ’’اقبال شناسی ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ’’تحریک ِ آزادی کشمیر‘‘ کے عنوان سے ایک باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔اس شمارے میں تخلیق کاروں کے فن پاروں کے ساتھ اُن کی تصاویر بھی جاری کی گئی ہیں جو ایک نئی روایت کا آغاز ہے۔یہ شمارہ بھی اُردو اورانگریزی تحریروں کے دو حصوں پر مشتمل ہے۔حصہ اُردو کے مدیران میں پروفیسر محمد سعید ثاقب ، پروفیسر غازی علم الدین اور پروفیسر منیر احمد یزدانی کے نام شامل ہیں جب کہ طلبہ مدیران میں محمد عرفان ، شاہد امیر جرال اور معاون مدیران میں اسد ندیم اور محمد شفیق انجم کے نام درج ہیں۔حصہ اُردو تین سو آٹھ صفحات پر مشتمل ہے جب کہ حصہ انگریزی بانوے صفحات پر مشتمل ہے۔ جس کے آغاز میں ایڈیٹوریل اور پراکٹوریل بوردز کی رنگین تصاویر دی گئی ہیں ۔ اس حصہ کے مدیر پروفیسر راجہ محمد لطیف خان ، جوائنٹ ایڈیٹر قاضی ابرار احمد اور سردار امجد حسین جب کہ معاون مدیران میں محمد ظفر اور عبدالقیوم کے نام درج ہیں(۲۶)

’’سروش‘‘ ۱۹۹۹ء

یہ شمارہ بھی چار رنگوں کے دیدہ زیب سرورق کا حامل ہے۔اُردو اور انگریزی تحریروں پر مبنی حصے حسب ِ روایت موجود ہیں۔حصہ اُردو ایک سو اٹھاون صفحات پر مشتمل ہے جس کے مدیران پروفیسر محمد سعید ثاقب ، پروفیسر غازی علم الدین اور پروفیسر منیر احمد یزدانی ہیں۔طلبہ مدیران میں عثمان بن مجید اور رفاقت حسین چوہدری جب کہ معاون مدیران میں حافظ شفیق انجم اور عابد محمود شامل ہیں۔تحریروں کی فہرست کو’’ترتیب ِ سروش‘‘ کے عنوان سے تشکیل دیا گیا ہے۔’’مراسلت‘‘ کے عنوان سے ایک باب بالکل آغاز میں شامل کیا گیا ہے جس میں ’’سروش‘‘ کے بارے میں اصحاب ِ فکر ودانش کی آراء کو شامل کیا گیا ہے۔اسے علاوہ ’’یوم ِ تکبیر ‘‘ کے عنوان سے ایک نیا باب شامل ترتیب کیا گیا ہے جس میں پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے حوالے سے تحریروں کو یکجا کیا گیا ہے۔

اداریے کا عنوان ’’نوائے سروش‘‘ ہے اور اس میں بیسویں صدی کے خاتمے اور اکیسویں صدی کے استقبال کا ذکر کیا گیا ہے لیکن اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ اکیسویں صدی کی آمد آمد ہے انسانی تہذیب و تمدن کے اس دور میں بھی جموں کشمیر کے لوگ اپنے بنیادی حق یعنی حق ِ خود ارادیت سے محروم ہیں۔ عالمی برادری کو بھارت کی ہٹ دھرمی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

اداریے میں اُردو زبان کی ترقی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اُردو کو اس کو جائز مقام دلانے میں ’’سروش‘‘ کی خدمات سے انکار نہیں۔’’سروش‘‘ کے مختلف شماروں کے اداریے اس کا بیّن ثبوت ہیں۔اس شمارے میں انگریزی تحریروں پر مبنی حصہ اکتیس صفحات پر مشتمل ہے جس کے ایڈیٹر راجہ محمد لطف خان ، جوائنٹ ایڈیٹر شمشاد خرم کیانی اور آنسہ وقار النساء ہیں جب کہ معاون مدیران میںمحمد ارشد قیوم اور زبیر شامل ہیں۔ ’’سروش‘‘ کا یہ شمارہ پرنسپل محمد الطاف چوہدری کی سرپرستی میں شائع ہوا(  ۲۷)

’’سروش‘‘ ۲۰۰۰

اس شمارے کے سرورق پر موجود تصویر جو آگ اور خون کے مناظر لیے ہوئے ہے۔تحریک ِ آزادی کشمیر کے تناظر میں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی خونی جارحیت کی عکاس ہے۔یہ شمارہ بھی حسب ِ روایت اُردو اور انگریزی تحریروں پر مبنی حصوں پر مشتمل ہے۔حصہ اُردو دو سو ستائیس صفحات پر مشتمل ہے جس کے مدیران پروفیسر محمد سعید ثاقب ، پروفیسر منیر احمد یزدانی اور پروفیسر عبدالباسط فاروقی ہیں۔طلبہ مدیران میں آصف محمود اور حافظ محمد شفیق انجم جب کہ معاون مدیران میں عابد محمود اور فرقان ریاض کے نام درج ہیں۔اداریے کا عنوان’’ نوائے سروش‘‘ ہے اور اس میں اس امر پر اظہار ِ تشکر کیا گیا ہے کہ ’’سروش‘‘ کی ادبی خدمات کے حوالہ سے ملک کے مشاہیر ، دانشور اور نامور ادباء اور نقادوں نے اپنے خطوط اور تبصروں کے ذریعے اسے سراہا ہے۔اس شمارے میں انگریزی تحریروں پر مبنی حصہ اڑتالیس صفحات پر مشتمل ہے۔ جس کے مدیر راجہ محمد لطیف خان ہیں جوائنٹ ایڈیٹر آنسہ وقار النساء ہیںجب کہ معاون مدیران میں رفاقت حسین اور محبوب الحسن شامل ہیں( ۲۸)

’’سروش‘‘ ۲۰۰۱ء

اس شمارے کے سرورق پر غروب ِ آفتاب کا خوبصورت منظر جموں و کشمیر کی جنت نظیر وادی کی عکاسی کرتا ہے۔یہ شمارہ بھی حسب ِروایت اُردو اور انگریزی تحریروں پر مبنی دو حصوں پر مشتمل ہے۔حصہ اُردو دو سو نو صفحات پر مشتمل ہے اور حصہ انگریزی سینتالیس صفحات کا حامل ہے۔حصہ اُردو کے مدیران میں پروفیسر محمد سعید ثاقب ، پروفیسر منیر احمد یزدانی اور پروفیسر عبدالباسط فاروقی شامل ہیں۔ طالب علم مدیر حافظ محمد شفیق انجم ہیںاور معاون مدیران میں عمران خان اور سید ناصر سادات کے نام درج ہیں۔ترتیب سروش میں اس دفعہ ’’نقد و تبصرہ‘‘ کے عنوان سے ایک نیا باب شامل کیا گیا ہے جس میں مختلف ادبی کتب پر تبصرے موجود ہیں۔

اداریے کا عنوان ’’نوائے سروش‘‘ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ’’سروش ‘‘ کی اصل زینت طلباء کی تحریروں سے ہی ہے کہ یہ انہی کا مجلہ ہے اور طلباء کے ادبی ذوق کی تسکین کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔اس کے علاوہ اداریے میں کالج میں ہونے والے تعمیر و ترقی کے منصوبے اور نئے شعبوں کے قیام کا ذکر ہے۔اس شمارے میں اُردو کے ساتھ ساتھ پہلی دفعہ میرپوری پہاڑی زبان میں کلام کو بھی شامل کیا گیا ہے۔حصہ انگریزی کے مدیر پروفیسر راجہ محمد لطیف خان ہیں جوائنٹ ایڈیٹر محمد عقیل احمد اور محبوب الحسن فدا ہیںجب کہ معاون مدیران میں سیّد مدثر حمید گردیزی اور آصف مسعود راجہ شامل ہیں (۲۹)

’’سروش‘‘ ۲۰۰۶ء۔ ۲۰۰۷ء

یہ سروش کا بائیسواں شمارہ ہے جو چند سال کے تعطل کے بعد منصہ شہود پر آیا۔اس شمارے کے سرورق پر گورنمنٹ کالج میرپور کی رنگین تصویر دی گئی ہے۔ اندرونی سرورق سے پہلے کالج میں ہونے والی مختلف تقاریب کی تصاویر دی گئی ہیں۔جن میں شعبہ ایم۔اے‘ اُردو کے قیام کے موقع پر ہونے والی تقریب بھی شامل ہے۔اس شمارے میں بھی انگریزی اور اُردو تحریروں پر مبنی دو حصوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔حصہ اُردو تین سو پندرہ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے مدیران پروفیسر محمد سعید ثاقب ، پروفیسر غازی علم الدین اور پروفیسر منیر احمد یزدانی ہیں۔طلباء مدیران میں سعادت رشید، زبین اختر ، قمر نواز کیانی اور راجہ عرفان خان جب کہ معاون مدیران میں فرقان رفیق ، خرم یوسف اور فرح اقبال کے نام درج ہیں۔حصہ انگریزی اُنچاس صفحات پر مشتمل ہے جس کے مدیر ِ اعلیٰ پروفیسر سیّد نور محمد شاہ ، مدیر پروفیسر سردار خالد پرویز شریک مدیر آنسہ عاصمہ اقبال کیانی اور معاون مدیر راشد اکرم ہیں۔

اداریے کا عنوان’’نوائے سروش‘‘ ہے جس میں ’’سروش‘‘ کی اشاعت میں چند سالہ تعطل کا ذکر کرتے ہوئے اس کی اشاعت کے تسلسل کو یقینی بنانے پر بات کی گئی ہے۔’’سروش‘‘ کے عالمی سطح پر ابلاغ کو سراہتے ہوئے اس کے بانیوں کو خراج ِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔’’ اقبال شناسی ‘‘ کے عنوان سے علامہ ؒ کی حیات کے مختلف گوشوںکے حوالہ سے تحریریں اس شمارے کی بھی زینت ہیں۔ یہ شمارہ پرنسپل پروفیسر سردار سرفراز احمد کی سرپرستی میں شائع کیا گیا(  ۳۰)

’’سروش‘‘ ۲۰۰۷ء۔۲۰۰۸ء  (گولڈن جوبلی نمبر)

یہ خصوصی شمارہ جسے گولڈن جوبلی نمبر قرار دیا گیا ہے۔ ’’سروش‘‘کا یہ تیئسواں شمار ہ ہے جو ’’سروش‘‘ کی اشاعت کے پچاس سال مکمل ہونے پر شائع کیا گیا ۔سرورق عنابی رنگ کا حامل ہے جس کے درمیان میں کالج کا مونوگرام اور اُوپر مجلے کا نام سنہری رنگ میں لکھا گیا ہے۔حصہ اُردو کے نگران پروفیسر راجہ محمد یعقوب اورمدیر پروفیسر غازی علم الدین ہیں۔معاون مدیران میں پروفیسر خواجہ خورشید احمد اور پروفیسر آصف حمید جب کہ طلباء مدیران میں عدنان علی ، فرقان رفیق ، حبیب الرحمٰن ، ثاقب حسین شاہ اور زین علی کے نام شامل ہیں۔

اداریے کا عنوان ’’نوائے سروش‘‘ ہے جس میں ’’سروش‘‘ کی اشاعت کے پچاس سال مکمل ہونے پر اظہار تشکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس پرچے نے اُردو ادب کے اُفق پر الطاف قریشی، خالد نظامی، عاصی کاشمیری اور انجم خیالی جیسے تخلیق کاروں کو متعارف کرایا ہے۔

اس شمارے میں بھی گورنمنٹ کالج میرپور کے سابق اساتذہ و طلباء کی یادداشتوں کو شامل ِ اشاعت کیا گیا ہے ۔ ’’سروش کی اشاعت کے پچاس سال‘‘ کے عنوان سے ایک باب قائم کیا گیا ہے جس میں ’’سروش‘‘ کے بانی مدیر اور سابق اساتذہ و طلباء کی یادداشتوں سے ایک عہد کی تاریخ کو محفوظ کیا گیا ہے۔ حسب ِ روایت ’’اقبال شناسی ‘‘ کے عنوان سے علامہ اقبال ؒ کی حیات و فکر کے مختلف گوشوں پر مبنی تحریروں کو یکجا کیا گیا ہے۔حصہ انگریزی کے انچارج بھی پروفیسر راجہ محمد یعقوب ہیں مدیرہ پروفیسر شازیہ نسرین صاحبہ ہیں۔شریک مدیران میں بینش اور صائمہ جب کہ معاون مدیر کے طور پر عبداللہ راجہ کے نام درج ہیں۔یہ شمارہ پرنسپل پروفیسر سردار سرفراز احمد کی سرپرستی میں شائع کیا گیا(۳۱)

’’سروش‘‘  ۲۰۰۹ء

گہرے نیلے رنگ کے سرورق پر کالج کا مونوگرام لیے ہوئے یہ ’’سروش‘‘ کا چوبیسواں شمارہ ہے۔حسب ِ روایت یہ شمارہ بھی اُردو اور انگریزی تحریروں کے دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ حصہ اُردو چار سوساٹھ صفحات اور حصہ انگریزی سو صفحات پر مشتمل ہے ۔حصہ اُردو کے مدیر اعلیٰ پروفیسر غازی علم الدین ہیں۔معاون مدیران میں پروفیسر ارشد عادل راٹھو ر ، پروفیسر آصف حمیداور پروفیسر خا؛د حسین چوہدری شامل ہیں جب کہ طلباء مدیران میں اُم ِ غزل ، نبیلہ ناز ، حرا بانو ، زاہد سلیم ، راجہ محمد ذوالقرنین ، خرم شہزاد اور محمد ریاض کے نام درج ہیں۔

اداریے کا عنوان ’’ نوائے سروش‘‘ ہے جس میں عالم ِ اسلام کے فکری و عملی جمود کا ذکر کرتے ہوئے طلباء اور اساتذہ پر اس جمود کو توڑنے کی بھاری ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔اس کے علاوہ اداریے میں مجلہ ’’سروش‘‘ کو نسل ِ نو کی ذہنی تربیت و روحانی تعمیر کے ساتھ ساتھ بہترین ادب کی تخلیق کا باعث قرار دیا گیا ہے۔اس شمارے میں ’’نقش ِ کہن بر سر آب ‘‘ کے عنوان سے گورنمنٹ کالج میرپور کے ابتدائی سالوں کی یادوں کو جمع کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر طلباء کے منتخب مضامین کو ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ‘‘ کے عنوان سے جمع کیا گیا ہے ۔ یہ شمارہ اپنے مواد کے اعتبار سے پچھلے بہت سے شماروں سے زیادہ موقر نظر آتا ہے۔ انگریزی تحریروں پر مبنی حصہ کے مدیران پروفیسر تنویر عندلیب ، پروفیسر عبدالرزاق چوہدری ، پروفیسر سردار حفیظ اللہ خان ، اور پروفیسر حامد عزیز ہیں جب کہ معاون مدیران میں محمد سرفراز ارشد ، سکندر یاسین خان، شبانہ میراور طیبہ فردوس شامل ہیں ۔ یہ شمارہ پرنسپل پروفیسر محمد شبیر چوہدری کی سرپرستی میں شائع کیا گیا( ۳۲)

’’سروش‘‘ ۲۰۱۰ء

یہ ’’سروش‘‘ کا پچیسواں شمارہ ہے ۔ جو ہلکے نیلے رنگ کے سرورق کا حامل ہے ۔ یہ شمارہ پرنسپل پروفیسر محمد شبیر چوہدری کی سرپرستی میں شائع ہوا۔نگران پروفیسر سیّدہ نرجس افتخار کاظمی ہیں جب کہ مدیر پروفیسر منیر احمد یزدانی ہیں ۔ معاونین میں پروفیسر ظہیر چوہدری ، پروفیسر حافظ محمد سلیمان ، پروفیسر آصف حمید اور طلبہ مدیران میں فرقان رفیق ، راجہ محمد ذوالقرنین ، شاہد سہیل ظفر، سحرش خان ، بختاور یعقوب مہر اور عمران مشتاق چوہان کے نام درج ہیں۔یہ شمارہ اُردو تحریروں کے پانچ سو پندرہ صفحات اور انگریزی کے ستر صفحات پر مشتمل ہے ۔حصہ انگریزی کی انچارج پروفیسر سیّدہ نرجس افتخار ، مدیران میں پروفیسر عبدالرزاق چوہدری ، پروفیسر محمد ابرار احمد اور پروفیسر حامد عزیز جب کہ معاون مدیران میں عنبرین کرن ، ثوبیہ محمود اور مہ وش محفوظ شامل ہیں۔

حسب ِ روایت سرورق کے اندرونی صفحات پر ’’سروش سال بہ سال‘‘ کے عنوان سے ۱۹۵۸ء کے پہلے شمارے سے ۲۰۱۰ء تک کے تمام شماروں کی ترتیب سال ِ اشاعت ، سرپرست ، نگران و منتظم ، مدیر اور معاون مدیر کے کالموں کی صورت میں موجود ہے۔

اداریے کا عنوان ’’نوائے سروش‘‘ ہے جس میں سروش کے بانی مدیر اعلیٰ عبدالعلیم صدیقی کی رحلت پر ان کے کارہائے نمایاں کا ذکر کرتے ہوئے خراج ِ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ گورنمنٹ کالج میرپور کے ابتدائی ایام کے شاہد لالہ اکرام اللہ اور پروفیسر تنویر مغل کی ناگہانی وفات پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان ہستیوں کو سروش کے صفحات میں یاد رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔تحریک ِ آزادی کشمیر کے حوالہ سے اداریے میں شمع حریت کو فروزاں رکھنے کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ آخری سطور میں پروفیسر ڈاکٹر سیّد نذیر شاہ جو ادارہ کے سابق پرنسپل بھی رہے ، کی وفات پر دکھ کا اظہار کیا گیا ہے۔ سال ِ مولانا محمد حسین آزاد کے حوالے سے اس شمارے میں اُن کی یاد میں خصوصی تحریر شامل کی گئی ہے۔ پروفیسر عبداعلیم صدیقی ، لالہ اکرام اللہ اور پروفیسر تنویر مغل کی یاد میں ایک خصوصی گوشہ موجود ہے جس کا عنوان ’’میری تمام سرگذشت کھوئے ہوئوں کی جستجو‘‘رکھا گیا ہے ۔یہ شمارہ بھی مواد اور ترتیب کے اعتبار سے حسن ِ ذوق کا اعلیٰ نمونہ ہے( ۳۳)

’’سروش‘‘ ۲۰۱۱ء

یہ ’’سروش‘‘ کا چھبیسواں شمارہ ہے ۔ گورنمنٹ کالج میرپور کے طلباء و اساتذہ جن کی تحریریں سروش میں چھپتی رہیں ان کے لیے ’’سروش ‘‘ کی مناسبت سے ’’سروشینز‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی ہے ۔ ایسے نامور ’’سروشینز‘‘ کو خراج ِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ’’سروش‘‘ کے اس خاص شمارے کو ’’ سروشینز نمبر ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔اس شمارے میں خصوصاََپچاس ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں چھپنے والی تحریروں کا انتخاب بھی شائع کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ پرانے میرپور شہر اور کالج کے حوالہ سے سابق طلباء و اساتذہ کی یادداشتیں بھی شائع کی گئی ہیں ۔ ’’سروش‘‘ کا یہ خصوصی شمارہ بھی اُردو اور انگریزی دو حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اُردو چھے سو صفحات پر اور حصہ انگریزی چوبیس صفحات پر مشتمل ہے۔اس خصوصی شمارے کے مدیر اعلیٰ پروفیسر غازی علم الدین ہیں معاونین میں پروفیسر سردار طارق ، پروفیسر ارشد عادل راٹھور اور پروفیسر آصف حمید جب کہ طلبہ مدیران میں نگہت بشیر ، آمنہ راجہ محمد ذوالقرنین ، جلال احمد، حفیظ الرحمٰن احسن، ایاز احمد جرال، لال محمد خان اور محمد ہمام شجیع صدیقی کے نام درج ہیں۔حصہ انگریزی کے مدیران میں پروفیسر محمد ابرار احمد اور پروفیسر حامد عزیزجب کہ معاون مدیران میں راجہ محمد عبداللہ اور یمنٰی خالد شامل ہیں۔اس شمارے کے مدیر اعلیٰ کی ’’سروش ‘‘ سے محبت اس مجلے کی ترسیل اور اس کے ابلاغ میں وسعت کا باعث بنی ہے اور پروفیسر غازی علم الدین نے ذاتی دلچسپی لے کر اس مجلے کوادب کے بین الاقوامی منظر نامے میں متعارف کرایا ہے۔عالمی اور قومی سطح پر اس مجلے کو جو پذیرائی ملی اس کا بیّن ثبوت وہ آراء اور تبصرے ہیں جو ملکی اور بین الاقوامی نامور ادبی و تنقیدی ہستیوں کی جانب سے کیے گئے انہی تبصروں کو ’’سروش۲۰۰۹ء۔انتقاد کی کسوٹی پر ‘‘ کے عنوان سے ایک باب میں پیش کیا گیا ہے۔

اداریے کا عنوان ’’نوائے سروش‘‘ ہے اور اس میں میرپور کی مردم خیز دھرتی کے نامور ادباء اور شعراء کا ذکر کرتے ہوئے انہیں ادب کا ایک مستند حوالہ اور قابل ِ قدر اثاثہ قرار دیا گیا ہے۔اداریے میں شعر و ادب کی تین معتبر ہستیوں ڈاکٹر عاصی کرنالی ، ڈاکٹر صابر آفاقی اور ڈاکٹر افتخار مغل کی وفات کو علمی و ادبی نقصان قرار دینے ہوئے ان کے ’’سروش‘‘ کے ساتھ تعاون پر خراج ِ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔اس شمارے میں ’’ذرا عمر ِ رفتہ کو آواز دینا ‘‘ کے عنوان سے گورنمنٹ کالج میرپور اور ’’سروش ‘‘ سے تعلق رکھنے والے ان سابق طلباء و اساتذہ کی تصاویر جمع کی گئی ہیں جو زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔’’سروش ‘‘ کا یہ شمارہ مواد اور معیار کے اعتبار سے نہایت موقر حیثیت کا حامل ہے( ۳۴)

’’سروش‘‘ ۲۰۱۲ء

’سروش‘‘ کا یہ شمارہ ’’سروش ‘‘کی تاریخ کا سب سے منفرد شمارہ ہے ۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ یہ ’’سروش‘‘ کا واحد شمارہ ہے جس کی ترتیب و تیاری کے تمام معاملات اس شمارے کے مدیر اعلیٰ پروفیسر غازی علم الدین نے تنہا انجام دیے ۔ حتیٰ کہ اس شمارے کے جُملہ اخراجات بھی موصوف نے خود ادا کیے ۔ سبزی مائل ہلکے نیلے رنگ کے سرورق پر صوفی صغیر حسن کی تصویر دی گئی ہے ۔ پروفیسر صوفی صغیر حسن پاکستان کے قیام کے بعد گورنمنٹ کالج میرپور کے پہلے پرنسپل تھے۔ گورنمنٹ کالج میرپور کی یہ عظیم شخصیت ماضی کے دھندلکوں میں تقریباََ فراموش ہو چکی تھی ۔ مدیر ِ اعلیٰ نے اس عظیم شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اس شمارے میں ان سے متعلق یادداشتوں کو بھی شامل کیا ہے۔

اداریے کا عنوان ’’جو دل پہ گذرتی ہے رقم کرتے رہیںگے‘‘ ہے جس میں مدیر ِ اعلیٰ نے ’’سروش ۲۰۱۱ء سروشینز نمبر‘‘ کی علمی و ادبی حلقوں میں پذیرائی اور ادبی حلقوں کی اعلیٰ شخصیات کی طرف سے اس کی ستائش پر اظہار ِ تشکر کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس شمارے کی اشاعت کے دوران آزاد کشمیر کے مایہ ناز استاد ، ماہر ِ تعلیم اور صاحب ِطرز ادیب پروفیسر عبدالرزاق مغل کی وفات پر رنج کا اشہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مرحوم ’’سروش ‘‘ کے بانیوں میں شامل تھے۔اداریے میں پروفیسر سیف اللہ خالد سابق مدیر مجلہ ’’فاران‘‘ ، جناب محمد علی چراغ نامور مورخ اور ادیب  اور چراغ حسن حسرت کے فرزند ِ ارجمند جناب ظہیر الحسن جاوید جو نامور صحافی ہیں کا ’’سروش ‘‘ اور مدیر ِ اعلیٰ سے تعاون پر شکریہ ادا کیا گیا ہے۔

اس شمارے میں حصہ اُردو تین سو اڑسٹھ صفحات اور حصہ انگریزی تیرہ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس شمارے کی ترتیب میں ’’نقش ِ کہن در بطن ِ آب‘‘ کے عنوان سے میر پور کالج کے سابق متعلمین کی یادوں پر مبنی تحریروں کو جمع کیا گیا ہے۔’’سروش ۲۰۱۱ء  انتقاد کی کسوٹی پر‘‘ اس باب میں ۲۰۱۱ء کے شمارے پر نامور ادباء کے تبصروں اور آراء پر مبنی خطوط شائع کیے گئے ہیں۔ اس شمارے کے آخری باب میں’’سروش کی تصویری تاریخ  ‘‘ کے عنوان سے بہت سی نادر و نایاب تصویریں دوبارہ شائع کی گئی ہیں جن میں گورنمنٹ کالج میرپور کے اس وقت تک کے تمام پرنسپل صاحبان کی تصاویر اُن کے عرصہ تعیناتی درج کر کے شائع کی گئی ہیں۔اس کے علاوہ بہت سی ایسی نایاب تصاویر بھی ہیں جو اس سے قبل ’’سروش ‘‘ کی زینت نہ بنی تھیں۔خاص طور پر ایسی مجالس ِ ادارات کی تصاویر کہ جنہوں نے ’’سروش ‘‘ کے مختلف شماروں کا مواد تو جمع کیا لیکن بوجوہ و شائع نہ ہو سکے۔یہ شمارہ مدیر ِ اعلی کی ’’سروش ‘‘ سے محبت اور حسن ِ ذوق کا بھرپور عکاس ہے(  ۳۵)

’’سروش‘‘  ۲۰۱۴ء

یہ ’’سروش ‘‘ کا اٹھائیسواں شمارہ ہے۔یہ شمارہ پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر راجہ محمد عارف خان کی سرپرستی میں شائع ہوا۔نگران مدیر پروفیسر منیر احمد یزدانیؔ ہیں ۔ مدیر عابد محمود عابدؔ ہیں۔ طلبہ مدیران میں سیّدہ عطرت بتول نقوی، محمد آصف ، نور العین اسلم، مائدہ اقبال ، مدثر اقبال ، اریبہ نثار ، عارف آزاد ، طیب خورشید ، زاہد اسلم اور محمد حسنین کے نام درج ہیں۔اس شمارے کے سرورق کا رنگ سیاہ ہے۔سرورق کیاندرونی صفحات پر خطاطی کے نمونے دیے گئے ہیںاور اس کے بعد ’’سروش سال بہ سال ‘‘ کے عنوان سے اب تک چھپنے والے ’’سروش ‘‘ کے تمام شماروں کی ترتیب دی گئی ہے۔اندرونی سرورق سے پہلے ’’سروش ‘‘کے ۲۰۱۳ء‘  ۲۰۱۴ء میں شائع ہونیوالے خصوصی شماروں کی ترتیب دی گئی ہے۔جن میں ’’سروش  تحقیقی مجلہ ‘‘ کے دو شمارے ، ’’سروش میاں محمد بخش نمبر‘‘اور ’’سروش جموں کشمیر نمبر شامل ہیں۔اندرونی سرورق کے بعد اس شمارے میں چھپنے والی تحریروں کو ’’حسن ِ ترتیب ‘‘ کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔یہ شمارہ حصہ اُردوکے تین سو چھیتیس اور حصہ انگریزی کے چونسٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔

اداریے کا عنوان ’’ نوائے سروش‘‘ ہے جس میں مدیر ِ اعلیٰ نے ’’سروش ‘‘ کے ساتھ اپنے تعلق کو مختلف حوالوں سے پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ گونمنٹ کالج میرپور کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان کی کوششوں سے ادارے میں قائم ہونے والی علمی و ادبی فضا کو سراہا گیا ہے۔اداریے کے آخر میں محمود ہاشمی ، پروفیسر نذیر انجم ، آصف پرویز اور معصوم حسین زندہ جیسی علمی و ادبی شخصیات کے اس دار ِ فانی سے کُوچ کر جانے پر رنج کے اظہار کے ساتھ ’’سروش ‘‘ کے اس شمارے میں مختلف تحریروں کی صورت میں انہیں خراج ِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔انگریزی تحریروں پر مبنی حصہ کے مدیران میں پروفیسر عزیزالر حمٰن اور پروفیسر حامد عزیز کے نام درج ہیں جب کہ معاون مدیران میں میں عمارہ ہادیہ اور عروج جبّار کے نام شامل ہیں۔’’سروش ‘‘ کی معمول کی اشاعت میں یہ اب تک کا آخری شمارہ ہے بعد میں شائع ہونے والے چند خصوصی نمبرز  کو معمول کی اشاعت کے مطابق جلد نمبر اور شمارہ نمبر نہیں دیے گئے۔اس اعتبار سے انہیں ’’سروش ۔اشاعت ِ خصوصی‘‘ کی ذیل میں رکھا گیا ہے(  ۳۶)

’’سروش ۔ خصوصی اشاعت  ‘‘

۲۰۱۳ء ، ۲۰۱۴ء کے سال گورنمنٹ کالج میرپور میں علمی و ادبی سرگرمیوں کے اعتبار سے بہت اہم ہیں ۔ سال ۲۰۱۳ء میں کالج میں ’’ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرکز ِ تحقیقات‘‘ کا قیام عمل میںآیا۔اس مرکز ِ تحقیقات کے زیر ِ اہتمام بہت سی کتب بھی شائع کی گئیں۔’’سروش‘‘ کے کچھ خصوصی نمبرز بھی اس مرکز ِ تحقیقات کے تحت شائع ہوئے ان خصوصی شماروں کو ’’سروش‘‘ کے سالنامے کے تسلسل سے ہٹ کر شائع کیا گیا اور ان پر معمول کی اشاعت کے مطابق جلد نمبر اور شمارہ نمبر نہیں دیے گئے۔ یہ خصوصی شمارے درج ذیل ہیں:

’’سروش ‘‘ میاں محمد بخش نمبر

’’سروش‘‘ جموں کشمیر نمبر

’’سروش ‘‘ اقبال کے نام

ان کے علاوہ ۲۰۱۴ء سے ’’سروش ‘‘ کی معمول کی اشاعت کے ساتھ ساتھ الگ سے ایک ششماہی تحقیقی مجلے کا آغاز کیا گیا جس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے وضع کردہ اصول و ضوابط کی روشنی میں صرف وہی تحریریں شامل کی گئی ہیں جو تحقیقی اصولوں کے مطابق لکھی گئی ہیں۔ ’’سروش تحقیقی مجلہ ‘‘ کے اب تک دو شمارے سامنے آچکے ہیں اور تیسرا شمارہ تکمیلی مراحل میں ہے۔ ’’سروش ‘‘ کی معمول کی اشاعت کا مجموعی جائزہ پیش کرنے کے بعد اب ان خصوصی شماروں اور تحقیقی مجلے کا اجمالی جائزہ پیش کرنا ضروری ہے تا کہ ’’سروش ‘‘ کے اب تک کسی بھی نوعیت سے سامنے آنے والے تمام شماروں کا جائزہ لیا جا سکے۔

’’سروش‘‘ میاں محمد بخش ؒ  نمبر

’’سروش ‘‘کا یہ خصوصی نمبر رومی کشمیر، عارف ِ کھڑی میاں محمد بخش ؒکے حوالہ سے شائع کیا گیا ہے جو جنوری ۲۰۱۴ء میں منصہ شہود پر آیا۔ اس میں اُن کے کلام و حیات کے مختلف گوشوں کو آشکار کیا گیا ہے۔ملک بھر سے نامور اسکالرز کے میاں صاحب کی حیات او ر اُن کے کلام کے حوالے سے مقالات شامل کیے گئے ہیں۔ سرورق کا رنگ سبز ہے ۔ اس شمارے کے مدیر ِ اعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان ہیں۔نائب مدیر پروفیسر محمد عمران شفیع ہیں جب کہ مدیران میں پروفیسر منیر احمد یزدانی اورپروفیسر مشتاق احمد ساقیؔ کے نام شامل ہیں۔اندرونی صفحہ پر وزیر ِ تعلیم کی طرف سے مبارکبادی پیغام موجود ہے۔

اداریے کا عنوان ’’پیش لفظ ‘‘ہے جس میں مدیر ِ اعلیٰ نے اس خصوصی نمبر کی اشاعت کے حوالہ سے پس منظراور مشکلات کا تذکرہ کیا ہے۔اداریے میں ’’سیف الملوک‘‘ کی زبان کے حوالے سے پنجابی اور پہاڑی زبان کے حوالے سے مباحث کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے پہاڑی زبان کا کلام قرار دیا ہے۔اداریے کے آخر میں ’’سروش ‘‘ کے مختلف شماروں کا ذکر کرتے ہوئے اس خصوصی نمبر پر تبصرہ و تنقید کی دعوت دی  گئی ہے۔’’فہرست ِ مندرجات ‘‘ کے عنوان سے اس شمارے میں شامل تحریروں کی فہرست پیش کی گئی ہے جس میں مقالات کو موضوعات کے اعتبار سے چھے ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ان ابواب سے پہلے مدیر اعلیٰ کی طرف سے پچاس صفحات کا مقدمہ تحریر کیا گیا ہے جس میں ’’سیف الملوک‘‘ کے مختلف نسخوں سے نمونے لے کربتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس کی زبان پنجابی نہیں بلکہ پہاڑی ہے۔ آخر میں کالج میں قائم ’’ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرکز ِ تحقیقات‘‘ اور اس کے تحت گوشہء تحقیق میاں محمد بخشؒ کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔میاں محمد بخشؒ کی حیات اور آپ کے کلام سے متعلق موقر مقالات کا یہ مجموعہ ایک حوالہ کی دستاویز ہے۔اس لیے تاریخی و تحقیقی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے(  ۳۷)

’’سروش ‘‘ جموں کشمیر نمبر

’’سروش کا یہ خصوصی شمارہ اپریل ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا۔سرورق کا رنگ گلابی ہے۔یہ شمارہ بھی کالج میں قائم مرکز ِ تحقیقات کے تحت شائع کیا گیا ۔’’سروش‘‘ کے اس خصوصی نمبر کے مدیر اعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان ہیں جب کہ مدیران میں پروفیسر منیر مغل ، پروفیسر رب نواز خان ، پروفیسر مشتاق احمد ساقیؔ اور پروفیسر مسعود چوہدری کے نام شامل ہیں۔پیش لفظ میں گورنمنٹ کالج میرپور کی تحریک آزادی کشمیر کے حوالہ سے جد و جہدکا اعتراف کرتے ہوئے اس کے سابق طلباء کے کردار کو خراج ِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔

اداریے میں اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اس شمارے کو بہت کم وقت میں پایہ تکمیل تک پہنچانا مقصود تھا اس لیے بہت کچھ خواہشات کے مطابق نہ ہو سکا تاہم اس فرض کی ادائیگی ضروری تھی اب قارئین کی آراء و تبصروں سے اس عمل کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔اس شمارے کے آغاز میں وزیر اعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر  اور چیف جسٹس سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر کا خطاب تحریرکیا گیا ہے جو انہوں نے کالج آمد کے موقع پرکیا۔اس کے علاوہ اس شمارے میں شامل تحریروں کو ’’انٹرویوز‘‘ ، ’’جموں کشمیر۔تاریخی مآخذات و مخطوطات‘‘ ، ’’ جموں کشمیر۔ تاریخی مطالعہ ‘‘ ، ’’تنازعہ جموںکشمیر ۔عہد بہ عہد ‘‘، ’’جموں کشمیر۔ ادب و ثقافت ‘‘ اور ’’مسئلہ جموں کشمیر ۔سوچ و عمل کی نئی راہیں‘‘ کے عناوین کی ذیل میں رکھا گیا ہے۔یہ شمارہ چار سو اڑتالیس صفحات پر مشتمل ہے(۳۸)

’’ سروش ‘‘ اقبال کے نام

اس خصوصی اشاعت میں ’’سروش ‘‘ کے سابقہ تمام شماروں میں علامہ اقبال ؒ کے حوالہ سے چھپنے والی تحریروں کو یکجا کیا گیا ہے۔اس کتاب کے مرتب پروفیسر غازی علم الدین ہیںجب کہ مہتمم پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان ہیں۔سرورق کا رنگ ہلکا نیلا ہے جس پر علامہ اقبال ؒ کی تصویر بھی موجود ہے۔یہ کتاب بھی کالج میں قائم ’’ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرکز ِ تحقیقات ‘‘ کے زیر اہتمام مئی ۲۰۱۴ء میں شائع کی گئی ہے۔اس میں سروش کے مختلف شماروں میں چھپنے والے علامہ اقبال ؒ کے حوالے سے ۵۶ چھپن مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔یہ مجموعہ مضامین دو سو اکسٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔ ان مضامین سے پہلے ’’فکر ِ اقبال اور قومی بے حسی ‘‘ کے عنوان سے پرنسپل گورنمنٹ کالج پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان کی تحریر بھی موجود ہے جس میں اقبال کی فکر کو قومی فکر قرار دے کر یہ سوال اُٹھائے گئے ہیں کہ اقبال کی ولولہ انگیز فکر کو نصاب سے نکالناپاکستان کو ناکام بنانے کی سکیم تھی ۔یہ سکیم دانستہ تھی یا غیر دانستہ؟ اقبال کا جاندار کلام فارسی میں ہے اور فارسی کو نصاب سے نکال کر قوم کو فکر ِ اقبال سے دورکیا گیا ہے۔ اس کے بعد ’’پیش گفتار‘‘ میں کتاب کے مرتب پروفیسر غازی علم الدین نے مجلہ ’’سروش ‘‘ کی تاریخی اہمیت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ بتایا ہے کہ ’’سروش ‘‘ کے تقریباََ سبھی شماروں میں اقبال ؒ ایک اہم موضوع رہا ہے۔اس موضوع کے حوالہ سے طلباء اور اساتذہ کی تحریریں چھپتی رہی ہیں۔پروفیسر مظفر مرزا مرحوم کی تحریک پر ان تحریروں کو یکجا کرنے کا کام کیا گیا تاہم بوجوہ تعطل کا شکار رہے۔۲۰۱۳ء میں گورنمنٹ کالج میرپور میں ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرکز ِ تحقیقات‘‘ کا قیام عمل میں آیا تو پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر عارف خان نے ذاتی دلچسپی لے کر اس منصوبے کی فوری اشاعت کی ہدایت کی جس پرعمل کرتے ہوئے اس کتاب کی اشاعت عمل میں آئی۔اس کے علاوہ اس تحریر میں موصوف نے ’’سروش ‘‘ میں لکھنے والی موقر شخصیات میں سے چند ایک کا تعارف کراتے ہوئے بتایا ہے کہ’’سروش ‘‘ میں علامہ اقبال ؒ کی شخصیت و فکر پر سب سے زیادہ مقالات پروفیسر میر احمد یزدانی کے ہیں جو گورنمنٹ کالج میرپور میں شعبہ اُردو کے صدر ہیں۔ بلا شبہ علامہ اقبال ؒ کی حیات و افکارکے مختلف گوشوں پر وقیع مضامین کا یہ مجموعہ اقبال ؒ شناسی میں ایک اہم پیش رفت ہے(  ۳۹)

’’سروش علمی و تحقیقی مجلہ‘‘ جولائی تا دسمبر ۲۰۱۳ء

گورنمنٹ کالج میرپور کے پہلے تحقیقی مجلے کا یہ پہلا شمارہ ہے۔ یہ شمارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحقیقی ضوابط کے مطابق شائع کیا گیا ہے۔سرورق کا رنگ ہلدی مائل زرد ہے اور سرورق کے بالائی حصہ پر گورنمنٹ کالج میرپور کی عمارت کی تصویر دی گئی ہے۔یہ مجلہ کالج میں قائم ہونے والے ’’ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرکز ِ تحقیقات ‘‘کے تحت شائع کیا گیا ہے۔اندرونی سرورق سے پہلے مقالہ نگاروںکے لیے ہدایات دی گئی ہیں جن میں مجلے میںشامل کیے جانے والے مقالات کی شرائط و ضوابط سے متعلق آگاہی دی گئی ہے۔اس تحقیقی شمارے کے مدیر ِ اعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان ہیں۔ مدیر پروفیسر منیر احمد یزدانی ہیں جب کہ معاون مدیران میں پروفیسر راجہ محمد طارق خان، پروفیسر حافظ محمد سلمان اور پروفیسر شازیہ نسرین شامل ہیں۔

اداریے میں کالج کا تاریخی پس منظر بیان کرنے کے بعد واضح کیا گیا ہے کہ ستر سال گزرنے کے بعد اب یہ کالج اس نہج تک پہنچ چکا ہے کہ اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا جا سکے اور یہ تحقیق کے جدید انداز اپنائے۔’’سروش ‘‘ کا یہ نیا جاری کردہ تحقیقی مجلہ اسی نصب العین کی جانب ایک قدم ہے۔ اس امر کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ اسے( HEC) کے ضابطہ پر تشکیل دیا گیا ہے تا کہ اس میں شامل مقالات ایک حوالہ بن سکیں۔مجلہ کے آخر میں’’ ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرکز ِ تحقیقات‘‘ کا تعارف اور اس کی اہمیت بیان کی گئی ہے ۔ یہ شمارہ ایک سو سولہ صفحات پر مشتمل ہے(  ۴۰)

’’سروش علمی و تحقیقی مجلہ ‘‘ جولائی تا دسمبر ۲۰۱۴ء

یہ ’’ششماہی سروش علمی و تحقیقی مجلہ کا اگرچہ دوسرا شمارہ ہے جو تقریباََ ایک ششماہی کے وقفے کے بعد شائع ہوا لیکن اس کے اندرونی سرورق پر شمارہ نمبر ۴ لکھا گیا ہے جو کہ حقائق کی روشنی میں درست نہیں۔حقیقت یہی ہے کہ اس دوران اس ششماہی مجلہ کا کوئی اور شمارہ شائع نہیں کیا گیا ۔سرورق کا رنگ ہلکا جامنی ہے۔اس شمارے کے مدیر ِاعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان ہیں مدیر پروفیسر منیر احمد یزدانی جب کہ معاون مدیران میں پروفیسر راجہ محمد طارق، پروفیسر مشتاق احمد ساقی، پروفیسر محمد اسلم چوہدری اور پروفیسر محمد عمران شفیع ہیں۔

اداریے میں علم و تحقیق کی اہمیت اُجاگر کرنے کے بعد بتایا گیا ہے کہ اس علمی و تحقیقی مجلے کا اجراء ایک اہم ادبی و تحقیقی پیش رفت ہے ۔اس کے علاوہ اداریے میں ’’ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرکز ِ تحقیقات ‘‘کے تحت تین نئے گوشہ ہائے تحقیق کے قیام کا ذکر کیا گیا ہے ۔ جن میں ’’گوشہء تحقیق میاں محمد بخشؒ ‘‘ ، ’’گوشہء تحقیق علامہ محمد اقبال ؒ‘‘ اور ’’گوشہء تحقیق شیخ محمود احمد‘‘ شامل ہیں۔کالج میں قائم اس مرکز ِ تحقیقات کے تحت مختصر عرصہ میں بیش قیمت تصانیف و تحقیقی مجلات کی اشاعت کالج میں جاری علمی ، ادبی اور تحقیقی سرگرمیوں کا بیّن ثبوت ہیں۔

پچھلے شمارے کی نسبت اس شمارے کی ترتیب میں یہ خیال رکھا گیا ہے کہ اس میں ہر تحقیقی مضمون سے پہلے اس کا خلاصہ انگریزی زبان میں دیا گیا ہے جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ضوابط کے مطابق ہے۔ اس کے علاوہ اس شمارے میں شامل تحریروں کی درجہ بندی کر کے انہیں ’’مقالات‘‘ ، ’’مباحث‘‘ اور ’’نقد و نظر ‘‘ کے عناوین کی ذیل میں رکھا گیا ہے۔ آخر میں کالج میں قائم ’’ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرکز ِ تحقیقات ‘‘ کے حوالہ سے ایک رپورٹ بھی شامل کی گئی ہے(  ۴۱)

حوالہ جات

۱۔        فضل الرحمٰن حزیں‘شیخ‘ پروفیسر غلام احمد مختار کے بارے میں خصوصی تحریر‘مضمون مطبوعہ مجلہ سروش‘ شمارہ۱۹۹۶ء گولڈن جوبلی نمبر حصہ دوئم ‘ ص۳۸

۲۔       غازی علم الدین، پروفیسر، سری کرن سنگھ کالج کے قیام کا پس منظر‘مضمون مطبوعہ مجلہ سروش‘شمارہ ۱۹۹۶ء گولڈن جوبلی نمبر حصہ دوئم‘ ص۵۷۔۵۸

۳۔       ۔۔۔۔۔۔۔ایضاََ۔۔۔۔۔۔  ص۵۸

۴۔       محمد صادق‘ بچھڑے ساتھی ‘ مضمون ،مطبوعہ مجلہ سروش‘ شمارہ ۱۹۶۲ء‘ ص ۱۴

۵۔       پراسپکٹس۲۰۱۵ء گورنمنٹ کالج میرپور‘ ص ۱

۶۔         سلیم رفیقی ‘ پروفیسر جیا لال کول‘مضمون مطبوعہ مجلہ سروش‘ شمارہ ۱۹۹۵ء گولڈن جوبلی نمبر حصہ اوّل ‘ ص  ۳۳

۷۔       مجلہ سروش ‘ گورنمنٹ کالج میرپور‘ آزاد کشمیر ‘شمارہ  ۱۹۵۸ء

۸۔       اندرونی فلیپ‘ مجلہ سروش‘ گورنمنٹ کالج میرپور‘ آزادکشمیر‘ شمارہ ۱۹۹۵ء گولڈن جوبلی نمبر حصہ اوّل

۹۔        خواجہ خورشید ا حمد‘ پروفیسر‘ (انٹرویو) از محمد عمران شفیع‘میرپور آزادکشمیر‘۱۰  اکتوبر ۲۰۱۵ء ‘  بوقت گیارہ بجے دن

۱۰۔      سرو ش ‘ مجلہ ‘گورنمنٹ کالج میرپور‘ آزاد کشمیر ‘شمارہ  ۱۹۶۲ء

۱۱۔       ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔  شمارہ  ۱۹۶۵ء

۱۲۔      ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔ شمارہ  ۱۹۶۶ء

۱۳۔      ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ  ۱۹۶۷ء

۱۴۔      ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ  ۱۹۶۸ء

۱۵۔      ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ  ۱۹۷۱ء

۱۶۔      ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ  ۱۹۷۲ء

۱۷۔     ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔شمارہ  ۱۹۷۳ء

۱۸۔      ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ  ۱۹۷۵ء

۱۹۔      ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ  ۱۹۷۶ء

۲۰۔     ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ  ۱۹۷۷ء

۲۱۔      ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ  ۱۹۷۹ء۔۱۹۸۰ء

۲۲۔     ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ  ۱۹۸۳ء

۲۳۔     ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ  ۱۹۹۰ء۔۱۹۹۱ء

۲۴۔     ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ  ۱۹۹۵ء گولڈن جوبلی نمبر حصہ اوّل

۲۵۔     ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ  ۱۹۹۶ء گولڈن جوبلی نمبر حصہ دوم

۲۶۔     ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ  ۱۹۹۷ء۔ ۱۹۹۸ء

۲۷۔    ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ  ۱۹۹۹ء

۲۸۔     ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ  ۲۰۰۰ء

۲۹۔     ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ ۲۰۰۱ء

۳۰۔     ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ ۲۰۰۶ء۔۲۰۰۷ء

۳۱۔      ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ ۲۰۰۷ء۔۲۰۰۸ء گولڈن جوبلی نمبر

۳۲۔     ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ ۲۰۰۹ء

۳۳۔    ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ ۲۰۱۰ء

۳۴۔    ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ ۲۰۱۱ء سروشینز نمبر

۳۵۔    ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ آزاد کشمیر ‘شمارہ ۲۰۱۲ء

۳۶۔     ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ شمارہ۲ ۲۰۱ء

۳۷۔    ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔ خصوصی اشاعت ‘ میاں محمد بخش نمبر‘ جنوری ۲۰۱۴ء

۳۸۔    ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔  خصوصی اشاعت ‘ جموں کشمیر نمبر ‘ اپریل ۲۰۱۴ء

۳۹۔     ’سروش ‘اقبال کے نام ‘ مرتب‘ غازی علم الدین ‘ پروفیسر ‘ ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرکز ِ تحقیقات ‘ گورنمنٹ کالج میرپورآزاد کشمیر‘ مئی ۲۰۱۴ء

۴۰۔     سروش‘ ششماہی علمی و تحقیقی مجلہ ‘گورنمنٹ کالج میرپور،آزاد کشمیر‘شمارہ جولائی تا دسمبر۲۰۱۳ء

۴۱۔      ۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔   شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۱۴ء

Back to top button